دو گز زمین بھی میسر نہیں
تحریر: صائمہ عباس
دنیا کو فانی دنیا اس لئے کہا جاتا ہے، کیونکہ ہر انسان نے باری باری اس دنیا سے رخصت ہونا ہے، اور آخر میں اس دنیا نے بھی ختم ہونا ہے، قرآن کریم میں بھی کئی بار انسان کے مرنے اور دنیا کو بھی ایک دن ختم ہوجانا ہے۔قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ ہر شے نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے جب سے یہ دنیا وجود میں آئی اور اللہ رب العزت نے آدم ؑ کو پیدا کیا تب ہی سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ ایک محدودمدت کے بعد ہر انسان کو اس دنیا سے جانا ہی پڑتا ہے، اور موت ایک حقیقت ہے۔ اور تب ہی سے یہ ہی ہوتا آرہا ہے کہ جب انسان کو موت آتی ہے تو اس کے جست خاکی کو زمین کے سپرد کیا جاتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں انسان کی آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا۔ویسے ہی انسان کے اموت میں اضافہ ہورہا ہے، انسان اپنے لئے نیا گھر کاروبار اور دوسری دنیاوی آرامدہ چیزوں کو حاصل کرنے میں تو بہت جوش و خروش سے مصروف ہے، مگر کیا وہ اس بات سے واقف ہے کہ اس کا اصل گھر آخر کہاں ہے؟ اس کی آخری منزل کہاں ہے؟ کیا اس نے تا قیامت اسی دنیا میں رہنا ہے؟ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔ اآج تک کوئی بھی ایسا انسان نہیں بچا جو دنیا بننے سے اب تک اس کا وجود موجود ہو، کیو نکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔
مگر یہاں ایک اہم سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس اشرف المخلوقات کو موت کے بعد دفانانے کے لئے کون جگہ مہیا کرے گا۔کیا ہر انسان کو خد جگہ اپنے لئے جگہ خریدنی چاہئے،؟ یا کوئی ایسا نظام ہونا چاہئے کہ کوئی ایسی حکومت جو انسان کو اس کی زندگی میں تو چھت مہیا نہ کر سکی مگر موت کے بعد دو گز زمین مہیا کریں اس زمین کو قبر یعنی آخری آرام گا ہ جہاں ایک انسان کی موت کے بعد اس کو دفنا دیا جاتا ہے۔
ہر علاقے میں انسان نے اپنے قبرستان کے لئے جگہ مقرر کی ہوئی ہے۔ کیونکہ انسان کے دنیا میں آنے کا تو علم ہوتا ہے، مگر موت کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کب اور کس وقت آ جائے، پھر چاہئے انسان اس چیز کے لئے تیار ہے بھی یا نہیں، مگر مختلف علاقوں کے لوگ پہلے سے جگہ مقر ر کر کے رکھ دیتے ہیں، اور ملک کو جب ایک عوامی حکومت سنبھال رہی ہوتو یہ اس حکومت کی ذمہ د اری ہوتی ہے کہ وہ اپنے غریب عوام کے لئے کم از کم قبرستان کی جگہ ہی دیکھا دے، تاکہ ایک غریب انسان جو دنیا میں اپنے اور اپنے خاندان والوں کے لئے چھت نہ خرید نہ سکے تو وہ اپنی آخری آرام گاہ پر تو سکون او رچین کی نیند کر سکے۔ ایک عام انسان جو اس دور میں مشکل سے اپنے اور گھر والوں کے لئے محنت اور مذدوری کرتا ہے وہ پھر اپنی موت کے بعدکے لئے کیسے اپنی ہی قبر کے لئے جگہ خرید سکتا ہے؟ جو زندگی میں اپنے لئے عیش و آرام کے لئے ایک اپنا ذاتی گھر نہ بنا سکا، کیا موت کے بعد وہ اپنے لئے ہی آرام خرید سکتا ہے؟ سوچ دھنگ رہجاتی ہے جب آپ کے آرد گرد ایسے وقعیات رو نما ہوتے ہیں، مسائل کا فقدان اور حکومت کی عدم توجہی سے رونما ہونے والے یہ مسائل ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتے، ہزاروں مسائل ایسے ہیں جو اب تک حل طلب ہیں، ایک اسے ہی مسلے کی شکار دیامر کالونی جہاں قبرستان کا مسلہ پچھلے کئی سالوں سے التوء کا شکار ہے، کئی سیا سی ادوار بدلے کئی بہاریں دیامر کالونی کے لوگوں کو دیکھنے ملی، کئے جھوٹے اور بے بنیاد وعدے سننے کو ملے، مگر امید کی توقع لئے بیٹھے اس کمیونٹی کے لوگ اب بھی اپنی آخری آرام گا ہ کے لئے زمین کے منتظر ہیں، یہ کالونی600گھرانوں پر مشتمل ہیں، اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اب تک اس کمیونٹی کے لوگو ں کے لئے قبرستان کی جگہ ہی مقرر نہیں، ایک مخصوص سروے کے مطابق عمائدین دیامر کالونی سن 1999سے 2013تک میتوں کو گلگت کونوداس میں دفناتے تھے، اور آبادی کم ہونے کہ وجہ سے ان کو اسانی سے قبرستان کی جگہ مہیا ہوتی تھی، مگر جو ں جوں آبادی بڑتی گئی تو کونوداس قبرستان کمیٹی نے جوٹیال سمیت دیامر کالونی کے عوام کے لئے میتوں کو قبر گاہ لانے میں پابندی عائید کر دی، جس کی وجہ سے دیامر کالونی کے لوگو ں کو کافی مسائل کو سامنا کرنا پڑا، سیاسی رہنماؤں سے بار بار درخوست کرنے کے باوجود اس مسلے کو ٹال مٹول کر رکھا گیا، اس کالونی میں اب اگر کوئی موت ہوجائے تو، دو ہی راستے ہیں اگر کوئی امیر ہے تو وہ جگہ خرید لے کیو نکہ وہ خرید سکتا ہے، اور اگر کسی غریب کی موت ہوجائے تو وہ یا اپنے آبائی گاوٗں لے جائے یا پھر دریا برد کر دے، کیو نکہ اس کے پاس مذید کوئی گنجائیش نہیں، دیامر کالونی کے عوام اب بھی حکومت سمیت دیگر اداروں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں،
حکومت گلگت بلتستان کو چاہئے کہ دیامر کالونی کے قبرستان کے مسلے کو حل کریں کوئی ایسی جگہ مہیا کی جائے جہاں دیامر کالونی کے لوگ میتوں کو دفنائے۔ یا پھر مقامی صاحب روزگار لوگوں پر مخصوص رقم مختص کی جائے اور اس رقم سے قبرستان کے لئے زمین خریدی جائے،
کتناہے بدنصیب ہے ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوہ یار میں