کشمیرچھن نہیں سکتا۔۔۔!
کشمیر میں ہری سنگھ مہاراجہ کا سکہ جما ہوا تھا۔ جب اُدھر جناح ؒ کی قیادت میں فکرِاقبال ؒ کومطلع فجرنصیب ہوئی۔ شمالی علاقہ جات، موجودہ گلگت بلتستان کے علاقے کی مسلم اکثریت میں دوقومی نظریہ جاگزیں ہوا۔وجاء الحق وزھق الباطل معجزن ہوا۔ دیامر سے پدم تک ڈوگروں کو پسپائی پر مجبور کیااور یہ علاقہ بذورقوت ایمانی آزاد کرالیا۔ادُھرریاست جموں وکشمیر پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔تقسیم ہند میں باونڈری کمیشن کے اصولوں کی رو سے تقسیم والحاق میں الجھن کی شکار ریاستوں میں یہ کشمیرکوئی اکلوتی نظیر نہیں تھا البتہ مجموعی طور پر چھ سو پچاس کے لگ بھگ چھوٹی بڑی راجدانی ریاستیں دو نوخیز ممالک کے درمیان اسی کشمکش کی شکار ہوئیں۔ راجاؤں کی رائے میں جب بڑی مشکلوں اور طویل جدوجہد کے بعد جب کہ تاج برطانیہ کے تسلط سے انہیں آزادی مل ہی گئی ہے تو کیوں کر کسی اور حکومت کو اپنی راجدانی میں سرکھپانے دیتا اورپھر سے سینگ اڑاکر دوسری مصیبت میں پھنس جاتا، اس لئے راجگان کی خواہش تھی کہ وہ بطور آزاد ریاست اپنی حکومت قائم رکھے جبکہ اس کے برعکس عوام کی اکثریت اسے مورثی طرز حکومت اور غیر جمہوری سمجھ کر عاجز تھی اس لئے عوام چاہتی تھی کہ انہیں جمہوری اصولوں کے مطابق آزادی سے ہندوستان یا پاکستان میں کسی ایک کا حصہ بننے دیا جائے۔ یہ کشمکش بعضے راجدانیوں میں خون آشام فسادات کی صورت اختیار کرگئی۔ کشمیر جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر اس مخمصے کا شکاررہا اس کے علاوہ کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ خود ہندو اور اس کے زیر تسلط اکثر یتی آبادی مسلمانوں کی تھی۔ اس لئے ہری سنگھ نے عافیت اسی میں جانی کہ وہ دونوں سے بے دخل رہے۔ اکتوبر انیس سو سینتالیس کو اس کی امیدوں کی چراغ کی لو اس طوفان بربادی سے ٹمٹمانے لگی کہ جب کشمیر کے حریت پسندمجاہدین کا لشکر سری نگر میں اس کے دروازے پر دستک دینے لگا۔ ہری سنگھ کس کو مدد کے لئے پکارتا؟ کشمیریوں کو، کہ جن کی اکثریت پاکستان میں شامل ہونے کے لئے مجاہدین کے ساتھ کھڑی تھی؟۔ یا پھر پاکستان کو؟ کہ جس کے ساتھ الحاق کے لئے کشمیر میں آزادی کی شمع فروزاں ہوئی تھی؟۔ لامحالہ اسے ہندوستان سے مددکی اپیل کرنی پڑی۔ جب انہوں نے گاندہی کو تاربھیجا کہ ہمیں آپ کی عسکری مدد کی ضرورت ہے، ادھر گاندہی کا شاتر دماغ چل پڑا اس نے مہاراجہ ہری سنگھ کی امداد کے لئے تحریری عرضی کی شرط عائد کی۔ چاروناچار ہری نے تحریری عرضی داغ دی۔ یوں دو ڈکوٹہ جہازوں میں ہندوستانی فوجی کشمیر کی جنت نظیروادی میں گامزن ہوگئے۔ ہری ہندوستان سے نودوگیارہ ہوگئے اور چھبیس اکتوبر کو اس نے ہندوستان کے ساتھ ایک دستاویز پردستخط کرکے کشمیر کو ہندوستان کے حوالے کردیا۔ جب پاک بھارت درمیان پہلی کشیدگی بڑھی تویکم جنوری کو خود ہندوستان اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کرگیا۔
تیرہ اگست کو منظور ہونے والے قرارداد کی روشنی میں پاکستان کو اپنی فوجیں کشمیر سے واپس بلانے کا کہا بعدازاں ہندوستان نے بھی اپنی فوجیں کشمیر سے نکال باہر کرنی تھی اور یہ طے ہوا کہ یکبارگی جب ایسا ہوجائے تب آزادانہ اور شفاف استصواب رائے منعقد ہونا قرارپایا۔ اس خام خیالی کے درپردہ ہندوستانی کی یہ خوش فہمی تھی کہ وہ سمجھتے کہ کشمیر کے رہنماؤں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اس لئے وہ بڑی آسانی سے استصواب رائے اپنے حق میں منواپائے گا۔ یوں اس وقت کے بڑے کشمیری عوامی رہنما شیخ عبداللہ جن کی ہندوستان کو مکمل حمایت حاصل تھی ان کی قیادت میں تیس اکتوبرسنہ اڑتالیس کو اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی جس نے کشمیریوں کے تازہ زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔
حریت پسند سرفروشوں نے یکم جنوری انیس سو انچاس تک آزاد جموں و کشمیر کو ہندوستانی جابر وقابض افواج کے چنگل سے چھڑالیا تھا جبکہ اس کا پینتالیس فیصدی علاقہ ابھی بھی ہندوستان کے زیرنگین بمثل بسمل نیم جاں مضطرب تھا، جنگ بندی کا معاہدہ طے ہوا۔ انیس سو ستاون میں ہندوستان نے کشمیر کو پہلی بار اپنے ناجائز قبضے میں لے لیا۔ اس معاہدے کے پیش نظر کہ جس میں ہری سنگھ نے کشمیر کو ہندوستان میں باضابطہ طورپر شامل نہ کرنے کا کہا تھا اور اس لئے ہندوستان کو اتنی آسانی سے کشمیرکو نگلنا مشکل ہوگیا چنانچہ انہیں اس کی گارنٹی کے طورپر اپنے آئین میں کشمیر کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر گنجائش نکال کر کشمیر کو خصوصی مقام دلانے والا دفعہ تین سو ستر شامل کرنا پڑا۔ جس کی رو سے دیگر چند باتوں کے علاوہ یہ اہم نکتہ بھی شامل ہوا کہ کشمیر سے باہر کا کوئی بندہ کشمیر میں جائیداد نہیں خرید کرسکتا۔ انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت ٹاکرے کے اختتام پر اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور جنرل ایوب خان صدرپاکستان کے درمیان ایک معاہدہ تاشقند میں ہوا۔ وہ دونوں ذمہ دار شخصیات اس مسئلے کا دیرپا حل نکالنے میں مستعد تھے کہ بداختری زمانہ شاستری کو نزع نے مہلت نہ دی اور جنرل ایوب کو یحییٰ خان نے ٹیک اوور کیا۔ ہندوستان پاکستان تعلقات میں کشمیر ہمیشہ سے ایک اہم اور مرکزی نوعیت کا حامل مسئلہ رہا ہے۔ انیس سو پینسٹھ میں جب ایندراگاندی نے کشمیر میں ایمرجنسی کا اعلان کیا لیکن متعصب ہندومفادپسند وں کی مخالفت نے انہیں انیس سو اٹھہتر کے چناؤ میں شکست سے دوچار کیا۔ انیس سو اسی کی دہائیوں میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین نے کامیاب کاروائیوں کا آغا زکیا۔ ہندوستان ہمیشہ کی طرح پاکستان کو ان کاروائیوں کا موردالزام ٹھہراتا رہا اور پاک بھارت کنٹرول لائن پر تناو کے ساتھ ساتھ فائرنگ کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔ جس مسئلے کو ہندوستان خود اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے اس مسئلے کو انیس سو نوے تک ہندوستان شملہ معاہدے کے پس پردہ چھپاتا رہا اور اپنی ہٹ دھرمی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر ٹالتا رہا کہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی سے اس کا حل ڈھونڈا جائے گا۔
اب جبکہ حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر نے اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے ثالثی کردار اداکرنے کی پیش کش کی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہندوستانی وزیراعظم نے بھی اس مسئلے پر انہیں اپنا اثررسوخ استعمال کرنے کا کہا تھا،ہندوجنونیت کا حامی ہندوستانی وزیراعظم آتش زیر پاہوگئے شاید وہ یہ توقع ہی نہیں کررہا تھا کہ پاکستان سفارتی سطح پر اتنی بڑی کامیابی حاصل کرلے گا یا وہ اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ امریکی صدر اس بات کا بھانڈا نہیں پھوڑے گا، اب جبکہ دوچند بار امریکی صدر نے اپنے بیان کو دہرایا تو انہیں شدید تکلیف ہوئی۔ اس کا فوری ردعمل تو انہوں نے روایتی لیت و لعل سے دیتا رہا لیکن جب انہیں یہ اندازہ ہوا کہ اس سے جنونی ہندؤں کی حمایت یافتہ حکومت کچھ حاصل نہیں کر پائی تو انہوں نے لوگ صبا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت قائم رکھنے والے آئینی شق کی منسوخی کی قرداد پیش کی۔اس کے ساتھ ساتھ ریاست کشمیر کے باسیوں کو حق ملکیت اور مستقل شہریت کی فراہمی کے حوالے سے آئینی تحفظ کی شق ۵۳ اے، کی منسوخی کا بھی بل پیش کیا۔
عالم انسانیت، اقوام متحدہ، مسلم امہ اور خاص کر پاکستان اور ہمسایہ ممالک میں ہندوستان کے اس رویے کی شدت سے مخالفت اور ردعمل دیکھنے میں آیا۔ خاص کر دوست ملک چین نے جس کی سرحدیں گلگت بلتستان سے منسلک ہے بھارت کے اس فیصلے کو جارہانہ اور عوامی جمہوریہ چین کی سالمیت پر حملہ قراردیا۔ پاکستان نے قومی اسمبلی میں قرارداد مذمت اتفاق رائے کے ساتھ پاس کیا گیا۔ خیر، کشمیر میں جاری جدوجہد نہ ہندوستان کے کسی آئین میں گنجائش نکالنے پرمنتج تھی نہ ان کی عوام ہندوستان سے کسی قسم کی ہمدردی کی طالب ہے۔ نہ خصوصی حقوق دے کر ہندوستان نے دست بربریت منقطع کئے رکھا تھا نہ اب کشمیریوں کے لئے یہ کوئی نئی بات ہے۔ ہاں مگر کچھ نیا ہے تو ہندوستان کے لئے ہے کہ جسے جہاں سفارتی محاذوں پر منہ کی کھانی پڑرہی ہے وہاں اب اندرونی طور پر حریت پسندوں کی شدید مخالفت اور ردعمل کا سامنا ہوگا اور اس بار تو کسی بھی شدید ردعمل کا اخلاقی جواز بھی خود ہندوستان نے فراہم کردیا ہے۔چونکہ گلگت بلتستان کو بھی بطور فریق مسئلہ کشمیر، پاک بھارت موقف اور یواین کے قرارداد کے تناظر میں خصوصی حیثیت حاصل ہونی چاہئے تھی لیکن فرق صرف اس بات کا ہے کہ یہاں کے لوگ پاکستان کو اپنی منزل سمجھتے ہیں اس لئے مکمل آئینی حقوق کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔یقینا اگر پاکستان اور گلگت بلتستان کے درمیان قومی آہنگی اور مذہبی رشتہ نہ ہوتاتو معاملہ کشمیر سے مختلف نہ ہوتا۔جبکہ وہاں مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہندوستان سے علیحیدگی چاہتے ہیں اس لئے آزادی اور ہندوستان کی بے دخلی سے سوا انہیں کچھ بھی قبول نہیں۔ خواہ ڈی اسکلیشن ہوکر معاملات معمول پر کیوں نہ آجائے یا پھر
مقبوضہ کشمیرمیں دوبارہ وہی حیثیت یا اس سے بڑھ کر کوئی حیثیت بھی کیوں نہ دی جائے، کشمیری سرفروش انسانیت سوز مظالم کے خاتمے اور صبح آزادی کا مطلع وا ہونے تک اپنی تحریک حریت کو کمزور پڑنے نہیں دیں گے اورتب تک کشمیر کوان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔