گلگت بلتستان یوتھ کانفرنس
تحریر : شہزاد حسین الہامی گزشتہ دنو ں گلگت کی مقامی ہوٹل میں پیپلزپارٹی ہیومین راءٹس ونگ کے زیر اہتمام بعنوان نوجوان لیڈز کا سیاسی استحکام اور امن میں کردار کے حوالے سے کانفرنس ہوئی ، اس کانفرنس میں گلگت بلتستان میں یوتھ اور طلباء کے تنظیموں اور مختلف فورمز کے نوجوانوں سمیت قراقرم یونیورسٹی کے طلباء رہنما نے شرکت کی ، اس کانفرنس کے مقررین میں پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت ہیومین راءٹس گلگت بلتستان کے ذمہ دار اور گلگت بلتستان کے کالم نگار اسرارالدین اسرارسمیت وزیر اعلی گلگت بلتستان ٹاسک فورس کے چئیرمین ساجد میر نے بھی شرکت کی ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرار الدین اسرار نے ہیومین رائیٹس کے حوالے سے شرکاء کانفرنس کو آگاہ کیا اور ساتھ ہی گلگت بلتستان سمیت ملکی سطح پر نوجوانوں کا سیاسی استحکام اور امن میں کرار کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ دور کے سیاسی کلچر میں سنجیدگی بہت کم ہے اور غیر سنجیدگی ذیادہ نظر آتی ہے ، اس قسم کے حالات میں اس قسم کا کانفرنس نعمت سے کم نہیں ، انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد سیاسی میدان میں موجود پڑھی لکھی نوجوان قیادت موجود تھی مگر موجودہ دور میں پڑھی لکھی نوجوان قیادت نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ہے جو کہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور نوجوان قیادت کو چاہیں کہ وہ مطالعہ کرنے کی کوشیش کریں اور عالمی تاریخی اور پاکستان کی تاریخی کتابو ں کا مطالعہ ضرور کریں ،انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں پہلے سٹڈی سرکلر ہوتے تھے جس میں سیاسی کارکنوں کی تربیت پر کام ہوتا تھا اور باقاعدہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان لیٹرچرپر کام کرتے تھے اور تاریخی کتابوں سمیت عالمی حالات اور واقعات پر گہری نظر رکھتے تھے ، انہوں نے کہا کہ اس دور میں پڑھے لکھے اور سنجیدہ نوجوانوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور سیاست میں سنجیدہ اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو نہیں آنا چاہیں یہ بیانیہ اس وقت معاشرے میں عام ہے اس بیانیہ کے خاتمے کو نوجوانوں نے خود ختم کرنا ہے اورنوجوانوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تب ہی یہ ملک اور گلگت بلتستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اس دور میں نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہے ، نوجوانوں نے ذندگی کے ہر شعبے میں کام کرنا ہے اور سیاسی میدان میں بھی انکو اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا ، انہوں نے کانفرنس میں کہا کہ گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء یونین پر پابندی عائد ہے جسکی وجہ سیاسی میدان میں خلا پیدا ہوا ہے حکومت کو چاہیں کہ وہ فوری طور پر تعلیمی اداروں سے طلباء یونین سے پابندی ہٹا دیں ، طلباء یونین علاقے میں قیادت فراہم کرنے کی نرسریاں ہیں انکو فعال ہونا چاہیں ساتھ ہی انہوں نے گلگت بلتستان میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے انقعاد پر بھی زور دیا اور مزید کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں میں یوتھ پالیسی مرتب ہو چکی ہے مگر گلگت بلتستان میں یوتھ پالیسی اب تک مرتب نہیں ہو سکی لہذا اس پر بھی علاقے کے نوجوانوں کو چاہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ ملکر اپنی سفارشات مرتب کریں اور گلگت بلتستان میں یوتھ پالیسی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ، اسرار الدین اسرار کے خطاب کے بعد کانفرنس میں سوالات کاسیشن شروع ہوا جس میں شرکاء کانفرنس نے بہت سے سوالات اٹھائے جن میں سیاسی جماعتوں کے اندار نوجوانوں کا کردار ، قراقرم یونیورسٹی میں جاری فیسوں کے حوالے سے احتجاج، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی دہشت گردی کی مزمت بھی کی گئی اورنوجوان صحافیوں نے بھی علاقے کے مسائل اور نوجوانوں کے حوالے سے اہم سوالات اٹھائے ،گلگت بلتستان میں کام کرنے والے تنظیموں اور فورمز کے ذمہ داروں نے اپنی تجویز بھی دی اسکے بعد معروف قانون دان و صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے شرکاء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت گلگت بلتستان کی یوتھ میں ٹلینٹ بہت ذیادہ ہے ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں موجود گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے تعلیمی میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے ، انہوں نے کہا کہ سیاسی عمل اور حکومت سازی میں نوجوانوں کو شامل کرنا لازمی ہو چکا ہے جس طرح گلگت بلتستان اسمبلی میں خواتین کے لئے مخص کوٹہ رکھا گیا ہے اسی طرح اسمبلی میں نوجوانوں کے لئے بھی خصوصی نشتیں مختص کرنے کی ضرورت ہے ، اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا پابند بنایا جائے کہ وہ انتخابات میں بھی نوجوانوں کو پارٹی ٹیکٹں دیں تاکہ نوجوان قیادت انتخابی سیاست میں بھی حصہ لے سکے ،انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ تعلیمی کے ساتھ ساتھ خطے کے مسائل اور حقو ق کے حصول میں بھی جدوجہد کریں ،اور ساتھ ہی انہوں نے تمام شرکاء سے اپیل کی کہ وہ تما م یوتھ سٹیک ہولڈز کے ساتھ ملکر مشترکہ فورم تشکیل دیں جو سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے اور منشور سے ہٹا کے اپنے مسائل اوریوتھ کے حقوق کے لئے مشترکہ جدوجہد کر سکے اور اس فورم سے آنے والی تجویز کو تما م سیاسی جماعتیں اور حکمران جماعت بھی غور کریں گی ،انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں ہونے والی ظلم و نانصافی کے خلاف اس فورمز میں موجود شرکاء کی جانب سے بھارت کے خلاف اور کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے قرداد بھی یو این اے آفس میں جمع کر دی جائیں تاکہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی طرف سے بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہاد ہمدری ہو سکے ، اس تقریب میں سابق ڈپٹی سپیکر جمیل احمد نے کہا کہ اس قسم کے پروگرمات دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی کرنا چاہیں تاکہ یوتھ اور طلباء اس قسم کے پروگرمات میں آکر اپنی تجویز اور اپنے مسائل کو بیان کریں ساتھ ہی انہوں نے طلباء کی جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی ، اس تقریب میں وزیر اعلی گلگت بلتستان ٹاسک فورس کے چئیرمین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس قسم کے پروگرمات کو علاقے کے لئے نیک شگون قراد دیا اور انہوں نے کہا کہ اس فورم سے آنے والی تجویز کو اپنے فورم پر بھی لیکر آئیں گے اور یوتھ کے مسائل اور انکے حل کے لئے اپنی طرف سے پوری کوشیش کرینگے محترم قارئین ! گلگت بلتستان کے طلباء اور یوتھ کے مسائل اور انکی جانب سے پیش کی گئی تجویز سن کر دلی خوشی ہوئی اور امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری یوتھ آنے والے وقتوں میں دیگر شعبوں کی طرسیاسی میدان میں بھی آکر اپنی خدمات سرانجام دینگے یہاں ہ میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری یوتھ اور پڑھی لکھی نوجوانوں نسل کو سیاست سے دور کیوں رکھا جا رہا ہے ;238; اور سیاست کو انکے سامنے شجرہ ممنوع کر کے کیوں پیش کیا جاتا ہے ;238; گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو چاہیں کہ وہ اپنی پڑھائی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی کاموں میں بھی اپنا کردار ادا کریں ، سیاسی میدان میں آکر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں رہ کر طلباء اور یوتھ کے مسائل کو اجاگر کریں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں آکر اپنے خدمات پیش کرنے کی اس معاشرے میں اشد ضرورت ہے مشکلات ضرور ہے مگر حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی یہاں پر ایک گزارش گلگت بلتستان میں موجود سیاسی جماعتوں کی قائدین سے کہ وہ اپنی جماعتوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو انکا جائز مقام دیے اور مشاورت کے عمل میں انکو بھی شامل کریں ،گلگت بلتستان کے معاشرے میں اب پڑھے لکھے نوجوانوں کی ضرورت ہے اور سیاسی جماعتوں میں بھی پڑھے لکھے نوجوانوں کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت آگے نہیں بڑسکتی ،ساتھ ہی پارٹی جماعتوں میں پیسے اور گاڑیاں دیکھ کربڑے بڑے عہدے دینے کا وقت گزار چکا ہے ، کوئی بھی پارٹی ذمہ دار یا عہدار اپنے پارٹی کا سفیر ہوتا ہے اور کسی بھی فورم میں اسکو عوام کے سامنے جواب دینا ہوتا ہے اس میں اگر پڑھا لکھا نوجوان ہوگا جس کو پاکستان کی تاریخ اور علاقے کی صورت حال دیکھ کر وہ اپنی رائے دئیے گا تو وہ عوام کو بھی مطمین کریں گا اور پارٹی کی بہتر ترجمانی سمیت علاقے کے مسائل کو بھی حل کروانے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکتا ہے ۔ آخر میں اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا ،
نہ کر شکوہ مقدر سے مقدر آزماتا جا
نہ ڈر منزل کی دوری سے قدم آگے بڑھتا جا ۔ |
|
|