کالمز

ترک صدر کا دورہ پاکستان 

16 اور 17 نومبر 2016 ؁ء کو ترک صدر رجب طیب اردگان کادو روزہ دورہ پاکستان اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب ہماری تاریخ کا روشن باب ہے اس دورے سے دونوں برا در اسلامی ملکوں کے درمیاں سفارتی رشتوں کو دفاعی معاہدوں اور مشترکہ تجارت ، مشترکہ اقتصادی تعاؤن اور مشترکہ دفاعی حکمت عملی کے ذریعے نئی جہت دی گئی اور خطے میں ایک نئی دفاعی و اقتصادی تکون کی راہ ہموار کی گئی اس تکون میں چین ، پاکستان اور ترکی شامل ہیں مستقبل میں رو س اور ایران کی شمولیت سے خطے میں ایک خوشگوار رتبدیلی آئیگی جو پاکستان ، افغانستان اور مشر ق وسطی کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حق میں بہتر ہوگی حالیہ برسوں میں رجب طیب اردگان نے اپنی قائد انہ صلاحیتوں کے ذریعے خود کو ترکی کا مرد آہن ثابت کیا ہے ترکی کا شمار دنیا کے 10 اہم ممالک میں ہوتا ہے اس کی آبادی 9 کروڑ ہے جعرافیائی لحاظ سے ترکی کا ایک حصہ ایشیا میں اور دوسرا حصہ یورپ میں واقع ہے انقر ہ اور استنبول الگ الگ براعظموں میں واقع ہیں یورپی یونین کی رکنیت کے لئے مضبوط امیدوار ہے نیٹو میں ترکی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے معاشی اور صنعتی لحاظ سے ترکی کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے کارخانوں کے جہاز ، ٹینک اور دیگر ساز و سامان برآمد کرتے ہیں ترکی میں تعمیرات اور تعمیراتی سامان کی صنعت بھی عروج پر ہے ترک کمپنیاں پوری دنیا میں توانائی اور بنیا دی ڈھانچہ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے ترک حکومت اور ترک سرمایہ کاروں کے ساتھ ذاتی تعلقات کے ذریعے کئی اہم منصوبوں میں ترک سرمایہ کاروں کو شامل کیا ہے ترک صدر کے دورہ پاکستان سے ہمارے لئے تین اہم مواقع پیدا ہوئے ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب ،پاکستانی قیادت کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات اور اسلام آباد میں وزیراعظم محمد نواز شریف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں ترک صدر نے مشترکہ دفاعی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا سٹر یٹجک پارٹنر شپ کا حوالہ دیا اور کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کا اعا دہ کیا نیز سرمایہ کاری اور تجارت کا حجم بڑھانے کا عزم ظاہر کیا پاکستان کو اس وقت اپنی خارجہ پالیسی کا نیا رخ متعین کرنے کی ضرورت کا احساس ہوگیا ہے روس کے ساتھ دفاعی معاہد ہ اور مشترکہ فوجی مشقوں سے نئے سفر کا آغاز ہوا ہے مستقبل قریب میں روسی صدر والا دیمیر پیوٹن کادورہ پاکستان بھی متو قع ہے عوامی جمہوریہ چین کے بعد روس اور ترکی کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے خطے میں پاکستان مضبوط دفاعی حصار بنانے میں مدد ملے گی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ترکی پاکستان کے فوجی اور سول افیسروں کو تربیت کے بہترین مواقع فراہم کرسکتا ہے اپنے افیسروں کی تربیت کے لئے برطانیہ اور امریکہ پر ہمارا انحصار ختم ہو جائے گا جو ملکی استحکام ، سلامتی اور قومی یک جہتی کے لئے بہت ضروری ہے پاکستان کو مسائل کے دلدل میں دھکیلنے کی بڑی وجہ ہماری سول اور فوجی فیسروں کی غلط تربیت ہے جو برطانیہ اور امریکہ سے ملتی ہے اس غلط تربیت کے نتیجے میں ملکی اتحا د پارہ پارہ ہوجاتا ہے پاکستانی ہونے کا تفا فر ختم ہوجاتا ہے اگر ہماری سول اور ملٹری بیوروکریسی کاتربیتی نظام چین ، روس ،ترکی اور ایران جیسے قابل فخر ملکوں کے ساتھ منسلک ہوا تو ہمارے افیسروں کا پورا کیڈر اپنی قوم اور اپنے ملک پر فخر کریگا اور ملک کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط ہوگا اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ ترکی میں بر سراقتدار جسٹس پارٹی کا تعلق دائیں بازو سے ہے پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ہیں سابق ترک وزیراعظم نجم الدین اریکان موجودہ ترک وزیراعظم عبدا للہ گل اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان کو دائیں بازو کی پاکستانی جماعتوں میں پذیرائی حاصل رہی ہے ترک صدر کے دورے سے پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتوں کو اگر ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا جمعیت العلمائے اسلام ، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میں موجودہ قربت اگر انتخابی اتحاد میں بدل گئی تو پاکستان بائیں بازو کی جماعتوں ، پاکستان پیپلز پارٹی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ، بلو چستان ، نیشنل پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، ایم کیو ایم اور قومی وطن پارٹی کو بھی انتخابی اتحاد کی صورت میں سامنے آنے کی ضر ورت پڑے گی اور وطن عزیز کی سیاست دو جماعتی نظام کی طرف رُخ کریگی ملک کی سیاست سے غیر ضروری گند کا صفایا ہوجائے گا تانگہ پارٹیاں دم توڑ دینگی اور وہ پارٹیاں بھی اپنی حیثیت کھود ینگی جن کے سامنے کوئی ملکی اور قومی ایجنڈا نہیں ہے اور جنکی سیاست محض شخصیات کے گرد گھو متی ہے یہ ترک صدر کے دورے کا فکری پہلو ہے پاکستانی دفتر خارجہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ترک صدر کے دورے کے بعد ایرانی اور روسی قیادت کے دورہ پاکستان پر توجہ دے اگر چین ، روس اور ترکی کے بعد ایران کیساتھ بھی مشترکہ دفاعی حکمت پر اتفاق ہوگیا تو پاکستان نا قابل تسخیر حیثیت اختیار کریگا اور کوئی دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکیگا ہمارے دوستوں کو اس بات کا اندازہ ہو یا نہ ہو ، ہمارے دشمنوں نے اس بات کا اندا زہ لگا لیا ہے نئی دہلی ،واشنگٹن اور لندن کے سفارتی ، صحافتی اور سیاسی و سماجی حلقوں نے ترک صدر کے دورہ پاکستان کا سختی سے نوٹس لیا۔ لابسٹ کے ذریعے منفی پروپیگینڈا کیا اور یہ تاثر دیا کہ ترک صدر کو ایسے موقع پر پاکستان کا دورہ نہیں کر نا چاہیے تھا لیکن اردو کے شاعر نے 100 باتوں کی ایک بات کہی ہے ۔

مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہو تا ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button