کالمز

سفر در سفر، نجیّہ سے سوسن تک!

’’سر جی ی ی ی یہ کیا؟ آرام نام کی چیز نہیں۔ پہلے صحت بعد میں کام۔ جتنا آپ کی آفیشل ذمہ داریاں اہم ہیں اتنا ہی آپ کے گھر والوں کا بھی حق ہے کہ آپ کچھ وقت ان کو بھی دے۔ آشا، آذین اور بھابھی جی یقیناً آپ کو بہت مس کرتے ہوں گے۔ آپ کے جذبے کو سلام۔ بس تھوڈا سا بیلینس لائف کی نیڈ ہے۔‘‘

میرے کل کے پوسٹ پر کسی قدردان کی طرف سے مذکورہ بالا تبصرہ نے مجھے اندر سے ہلا کے رکھ دیا۔ آپ میرا پروفائل اٹھاکر دیکھ لجیے گزشتہ کچھ سالوں سے میرا اکثر وقت اسفار میں گزرتا رہا ہے۔ مصروفیات اتنی کہ گھر پر ہوتے ہوئے بھی بچوں سے ہفتوں بعد ملاقات ہوتی ہے۔ صبح جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو بچے سو رہے ہوتے ہیں جبکہ رات کو واپسی پر بھی وہ اپنے بابا کی راہ تکتے تکتے ایک دفعہ پھر نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ کسی دن خوش قسمتی سے جلدی گھر آنا ہوتا ہے تو میں سوسن کو کال کرتا ہوں کہ آج وقت پر گھر آ رہا ہوں۔ پھر کیا دروازے پر دستک کے ساتھ آشا اور آذین میں اس بات پر لڑائی ہوتی ہے کہ دروازہ آشا پہلے کھولے یا آذین؟ آزین چونکہ چھوٹا ہے ضدی ہے اس لیے دروازہ وہی کھولتا ہے اور میرے گلے دونوں لگ جاتے ہیں۔ پھر سوسن کا مت پوچھیے میں کبھی سفر پر نکلتا ہوں تو ان کا اضطراب دیدنی ہوتا ہے۔ کل ہی کی بات ہے میں ہنزہ سے گلگت پہنچا ہی تھا کہ حکم ملا سکردو جانا ہے۔ مجھے گاڑی میں بٹھاتے ہوئے سوسن کی موٹی آنکھیں ایسی ہی نم نہیں ہوئی تھیں جیسے میں سکردو وعظ کے لیے نہیں بلکہ سیاچن محاذ پر لڑنے جا رہا ہوں۔ راستہ بھر مجھے ان کے یہ آنسو اپنے گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔ ویسے آج کے مادیت پرست معاشرے میں دین کی باتیں کرنا محاذ پر دشمن کے خلاف لڑنے سے کئی زیادہ مشکل ہے۔ کبھی تلوار سے لڑنا جہاد ہوا کرتا تھا آج قلم سے حق بات لکھنا اور زبان سے حق بات کہنا جہاد ہے۔ کل کے تبصرے نے مجھے اندر سے توڑا تھا کہ میں شاید گھر کو کم وقت دے رہا ہوں۔ میں جلد ہی بستر پر دراز ہوا تھا۔ جہاں گلگت سے براستہ دیوسئی سفر نے تھکا دیا تھا وہاں نیند کی دیوی بھی جلد ہی مہربان ہوئی تھی۔ صبح جلد ہی میری آنکھیں کھلی تھیں۔ نماز فجر کے بعد اسٹاف ہاؤسں کی لائبریری میں مجھے ایک پرانی کتاب ملی۔ جس کا سرورق اور شروع کے کچھ صفحات زمانے کی ستم کا شکار ہوئے تھے۔ اس لیے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کتاب کا نام کیا ہے، کس نے لکھی ہے، بس اندر کے کچھ صفحات سلامت تھے، جن میں، مجھے انور کا نجیّہ کےنام ایک خط ملا تھا۔ نہیں معلوم خط کی ہر سطر میں، مجھے نجیّہ کی جگہ سوسن کیوں محسوس ہوئی۔ شاید نجیّہ اور سوسن کی حالت ایک جیسی تھی۔ یہ بھی رب کی جانب سے ایک مصلحت ہو، میری مسز کا مجھے آنسوؤں کی برات کے ساتھ رخصت کرنا، کل کے تبصرے سے میرا پریشان ہونا، پھر مجھے یہ کتاب ملنا اور یہ خط پڑھنا اور ہر سطر پر خود کو انور کی جگہ اور سوسن کو نجیّہ کی جگہ محسوس کرنا اور مطمئین ہونا یہ سب روحانیت کے سربستہ راز ہیں کہ جن پر کھلی آنکھوں سے یقین کرنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی روحانیت یا عشق کھلی آنکھوں کا کام نہیں۔ اس کے لیے آنکھیں بند کرکے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاشم ندیم کا کہنا ہے کہ عشق کھلی آنکھ والوں کا کھیل نہیں، کھلی آنکھ صرف جسم کھوج سکتی ہے، اس (حقیقت) کو کھوجنا ہے تو آنکھیں بند کرکے ڈھونڈنا سیکھو، بند آنکھ فلک سے لے کر سمندروں کی گہرائی تک سب دیکھ لیتی ہے اور جو یہ بند آنکھ کا ہنر سیکھ لے، اس کے سامنے سارے آنکھوں والے نابینا ہو جاتے ہیں۔

ہماری بند آنکھوں نے شاید آج یہ ہنر سیکھ لیا تھا۔ خیر آگے بڑھتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے یہ انور کون ہے، نجیّہ کون تھی؟ سوسن اور نجیّہ کا کیا تعلق ہے اور میں یہ بھان مکتی کیوں جوڑ رہا ہوں۔ غازی انور پاشا ترکی کے ان قابلِ قدر مجاہدین میں سے تھے جنہوں نے اپنی ساری عمر اسلام دشمنوں کے ساتھ جہاد میں صرف کی اور بالآخر روسی بالشویکوں سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ انہوں نے اپنی شہادت سے صرف ایک دن پہلے ایک خط اپنی بیوی شہزادی نجیّہ سلطانہ کے نام روانہ کیا، اس نامعلوم کتاب کے مطابق جو انہوں نے ترکی کے اخبارات میں شائع کر دیا اور وہی سے ترجمہ ہوکر بائیس اپریل انیس سو تئیس کے ہندوستانی اخبارات میں شائع ہوا۔ یہ مکتوب اس قدر ولولہ انگیز ہے اور سبق آموز ہے کہ دل نے چاہا آپ کے ساتھ بانٹوں۔

انور پاشا اپنی رفیقۂ حیات کے نام اپنے آخری خط میں لکھتے ہیں:

’’میری رفیقۂ حیات اور سرمایۂ عیش و سرور نجیّہ! خدائے بزرگ و برتر تمہارا نگہبان ہے۔ تمہارا آخری خط اس وقت میرے سامنے ہے۔ تمہاری صورت تو دیکھ نہیں سکتا مگر خط کی سطروں اور حرفوں میں تمہاری اُنگلیاں حرکت کرتی نظر آرہی ہیں۔ خیمے کے اس دھندلکے میں کبھی کبھی تمہاری صورت بھی نگاہوں میں پھر جاتی ہے۔

میں تم سے جدا کیوں ہوں؟ راحتِ جان! یہ سوال تم بجا طور پر کر سکتی ہو۔ سنو! میں تم سے اس لیے جدا نہیں ہوں کہ مال و دولت کا طالب ہوں۔ اس لیے بھی جدا نہیں ہوں کہ اپنے لیے ایک تختِ شاہی قائم کر رہا ہوں جیسا کہ میرے دشمنوں نے مشہور کر رکھا ہے۔ میں تم سے صرف اس لیے جدا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرض مجھے یہاں کھینچ لایا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی فرض نہیں۔ یہی وہ فرض ہے جس کی ادائیگی کی نیت ہی انسان کو فردوسِ بریں کا مستحق بنا دیتی ہے۔ الحمدللہ! میں اس فرض کی محض نیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اسے عملاً انجام دے رہا ہوں۔ تمہاری جدائی ہر وقت میرے دل پر آرے چلایا کرتی ہے لیکن میں اس جدائی سے بے حد خوش ہوں، کیونکہ تمہاری محبت ہی ایک ایسی چیز ہے جو میرے عزم و ارادہ کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں اس آزمائش میں پورا اُترا اور اللہ کی محبت اور حکم کو اپنی محبت اور نفس پر مقدم رکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ تمہیں بھی خوش ہونا چاہیے اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہارا شوہر اتنا مضبوط ایمان رکھتا ہے کہ خود تمہاری محبت کو بھی اللہ کی محبت پر قربان کر سکتا ہے۔

تم پر تلوار سے جہاد فرض نہیں، لیکن تم بھی فرضِ جہاد سے مستثنیٰ نہیں۔ کوئی مسلمان مرد یا عورت جہاد سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ تہمارا جہاد یہ ہے کہ تم بھی اپنے نفس و محبت پر خدا کی محبت کو مقدم رکھو۔ دیکھو! یہ دُعا ہرگز نہ مانگنا کہ تمہارا شوہر میدانِ جہاد سے کسی طرح صحیح و سلامت واپس آجائے۔ یہ دُعا خود غرضی کی دُعا ہوگی اور خدا کو پسند نہ آئے گی۔ البتہ یہ دُعا کرتی رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے شوہر کا جہاد قبول فرمائے، اسے کامیابی کے ساتھ واپس لائے، ورنہ جامِ شہادت اس کے لبوں سے لگائے، وہ لب جو تم جانتی ہو شراب سے کبھی ناپاک نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ تلاوت اور ذکرِ الٰہی سے سرشار رہے ہیں۔ پیاری نجیّہ! آہ! وہ ساعت کیسی مبارک ہوگی جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں یہ سر، جسے تم خوبصورت بتایا کرتی تھیں، تن سے جدا ہوگا؟ وہ تن جو تمہاری محبت کی نگاہوں میں سپاہیوں کا نہیں، نازنینوں کا ہے۔ انور کی سب سے بڑی آرزو یہ ہےکہ شہید ہو جائے اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ اس کا حشر ہو۔ دُنیا چند روزہ ہے، موت یقینی ہے، پھر موت سے ڈرنا کیسا؟ جب موت آنے ہی والی ہے تو آدمی بستر پر پڑے پڑے کیوں مرے؟ شہادت کی موت، موت نہیں، زندگی ہے، لازوال زندگی!‘‘

اس خط میں انور پاشا اپنی نجیّہ کو دو وصیتیں کرتے ہیں کہ ان کے بعد ان کو کیا کرنا چاہیے۔ پہلی وصیت یہ کہ وہ شادی کرنا چاہے تو کرسکتی ہے جبکہ دوسری وصیت اس شرط کے ساتھ کہ اپنی تمام اولاد کو وہ انور کی زندگی کے حالات سنائے اور ان کو بھی راہ خدا میں اسلام اور وطن کی خدمت میں بھیجنے کی تاکید کرتا ہے۔ پھر کہتا ہے ’’اگر تم نے یہ نہ کیا تو یاد رکھو! میں جنت میں تم سے روٹھ جاؤں گا۔‘‘

انور پاشا کے خط کے آخری حصے نے رُلا دیا۔ یہاں انہوں نے لفظوں میں اپنا دل نکال کے رکھ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اچھا نجیّہ! رخصت، نہیں معلوم کیوں میرا دل کہتا ہے کہ اس خط کے بعد تمہیں پھر کبھی خط نہیں لکھ سکوں گا۔ کیا عجب ہے کہ کل ہی شہید ہوجاؤں، دیکھو صبر کرنا، میری شہادت پر غم کھانے کی بجائےخوشی کرنا کہ میرا اللہ کی راہ میں کام آجانا تمہارے لیے باعثِ فخر ہے۔

نجیّہ! اب رخصت ہوتا ہوں۔ ان شااللہ جنت میں ملیں گے اور پھر کبھی جدا نہ ہوں گے۔‘‘

خواہ یہ انور ہو یا کریمی جن کے پیچھے اگر نجیّہ اور سوسن جیسی باوفا بیویاں ہوں وہ راہِ حق میں ہمیشہ پا بہ رکاب رہتے ہیں۔ آپ خط میں انور کی جگہ کریمی اور نجیّہ کی جگہ سوسن کو رکھیں گے تو ممکن ہے آپ کو میرے سفر در سفر کی مشکلات، میرا قلمی و زبانی جہاد (تحریر و تقریر) اور خصوصاً میرے مقصدِ زیست کا کچھ اشارہ مل سکے۔

یار زندہ، صحبت باقی!

یکے از تحاریر کریم کریمی

سرینا ہوٹل خپلو

انتیس ستمبر دوہزار اُنیس

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button