کالمز

میں کس ٹیچر کو ہیپی ٹچیر ڈے وش کروں؟؟؟

میں حیران ہوں کہ میں اپنے کس ٹیچر کو ہیپی ٹیچر ڈے وش کروں۔ پھر کیا ہوا کہ مجھے زیر نظر ویڈیو کلپ ملی۔ اس ویڈیو کلپ نے میری مشکل آسان کردی۔ کیونکہ میں جس عہد میں پڑھ رہا تھا وہاں کم و بیش یہی نظام رائج تھا۔ میڑک یا ایف اے پاس ٹیچرز سبق کم پڑھاتے اور معصوم بچوں کو مرغا زیادہ بناتے۔ یا یوں سمجھئے کہ پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے ہاں ان کے پاس اگر کچھ ہوتا تھا تو صرف ڈنڈا۔ جناب! آپ یوں سمجھیں کہ یہ ٹیچر نہیں تھانیدار تھے۔ کیا زمانہ تھا۔ گھر آتے تو والدین بھی دو چار سناتے کہ ٹیچر نے خوب پٹائی ہوگی۔ نہیں سدھرو گے تو یہی تو ہوگا۔

زیر نظر ویڈیو میں بھی ٹیچر نما یہ جلاد معصوم فرشتوں پر پڑھائی کے نام پر جو تشدد کر رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ نظام آج بھی اکثر گورنمنٹ سکولوں میں رائج ہے۔

 

میں اپنے بچوں آشا اور آذین کو دیکھ کے حیران ہوتا ہوں کہ وہ رات کو دو بجے بھی جاگتے ہیں تو ان کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے ٹیچر کے پاس جانا ہے۔ مس آمنہ، آشا کی ٹیچر ہے جبکہ مس راضیہ، آذین کو پڑھاتی ہیں۔ ان دونوں ٹیچروں کا رویہ ماں کی طرح ہے جس کی وجہ سے بچوں کے دل میں اپنی ماں سے زیادہ ان کا نام اور احترام ہے۔ شاید اس لیے درس و تدریس کا پیشہ مقدس ہے۔ سوسن بھی ٹیچر ہے اس کو بھی اکثر آشا اور آذین سے زیادہ اپنے شاگردوں کی فکر کھائے جا رہی ہے اور ایسی ہی اساتذہ کو حقیقی معنوں میں استاد کہا جا سکتا ہے۔ ایسے اساتذہ کے بارے میں میرے دوست حبیب مشتاق نے خوب ہی کہا ہے۔ میں مس آمنہ، مس راضیہ اور سوسن کو ہیپی ٹیچر ڈے وش کرتے ہوئے ان کے نام یہ اشعار کیے دیتا ہوں؎

سنا ہے ان کو سخن کے اصول آتے ہیں

کرے کلام تو باتوں سے پھول آتے ہیں

سنا ہے ان کے پڑھانے میں ہے مٹھاس ایسی

بخار ہو بھی تو بچے سکول آتے ہیں

میں اپنے دور کو یاد کرکے کبھی کبھی روتا ہوں کہ کاش میں آج پیدا ہوتا مجھے بھی اپنے بچوں کے ٹیچرز کی طرح محبت کرنے والے ٹیچرز ملتے تو شاید آج میرا مقام اور اونچا ہوتا۔ لیکن ہم جس دور میں تھے وہ دور سکول زبردستی بھیجنا، سکول سے غیر حاضر رہنا اور سکول گئے بھی تو جلدی سکول سے بھاگنا اور ان سب کے پیچھے استاد کا رویہ ہوتا تھا وہ پڑھاتا کم اور تشدد زیادہ کرتا تھا۔

اب تو ماشااللہ سے تین لاکھ روپے والے ٹیچرز بھی اس مقدس پیشے سے منسلک ہوئے ہیں۔ مولا علیؑ نے فرمایا تھا ’’جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا گویا وہ میرا آقا ہے۔‘‘ کیا یہ تین لاکھ روپے رشوت دیکر ٹیچر بننے والے بھی آقا کہلانے کے لائق ہیں؟ میں حیرت زدہ ہوں کہ کل یہ اپنے بچوں کو اپنا تعارف کیسے کرائیں گے؟ آپ دُنیا کو جھوٹ بھول کر بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو نہیں۔ یہ امتحان تو ان کے سر سے گزرنے والا ہے۔

میں گزشتہ دنوں غذر کے دورے پر تھا، ہیڈ ٹیچرز کے ایک سیشن میں، میں ان کو ایک اچھے معلم کی خصوصیات پر لیکچر دے رہا تھا۔ کسی ہیڈ ٹیچر نے کہا ’’سر! آپ نے ہماری آنکھیں کھولیں۔ بیس بیس سال سے زیادہ ہماری سروس ہے لیکن یہ چیز ہمیں آج پتہ چلی کہ بچوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئیے۔‘‘ ایک اور صاحب نے کہا ’’سر! یہ دُنیا مکافاتِ عمل ہے جن جن ٹیچروں نے اپنے وقت میں معصوم بچوں پر تشدد کیا ان کا انجام بہت عبرت ناک ہوا۔ کوئی کینسر، کوئی فالج اور کوئی ایسی عبرت ناک موت سے دوچار ہوئے کہ الحفیظ والامان!‘‘

یہ بات تو تجربے میں آئی ہے جو انسان خصوصاً وہ استاد جیسے مقدس پیشے سے منسلک ہو، اگر وہ اپنے پیشے سے مخلص نہیں تو آپ ان کی اولاد کی طرف دیکھیں تو آپ کو رب کا انتقام نظر آئے گا۔ ایسے ٹیچرز کے بچے لوفر، بے کار اور بازاروں کی خاک چھانتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اور الحمدللہ جس جس استاد نے اپنے پیشے سے مخلص ہوکر کام کیا ہوگا ان کے بچے کامیابیوں کی سیڑھیاں چھڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ دُنیا کا قانون ہے ہم جو کرتے ہیں فطرت وہی ہمیں لوٹا دیتی ہے۔

میری اس تحریر کا مقصد ہرگز ایسا نہیں کہ اچھے اساتذہ موجود نہیں۔ اچھے اساتذہ موجود ضرور ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ جبکہ بے ایمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سیلف اسٹیڈی کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یہ اساتذہ نما مخلوق اخبار بھی ان دنوں پڑھتی ہے جب ان کی تنخواہ میں اضافے کی کوئی خبر لگی ہو، یا بجٹ کا اعلان ہوا ہو۔ ورنہ ان کو بلاک کے ٹھیکوں، دکانداری، کاروبار، پراپرٹی ڈیلنگ وغیرہ سے فرصت ہی کہاں کہ وہ کوئی کتاب بھی اٹھا کے پڑھ لیں۔ یہ ایک اجتماعی بے حسی ہے جس پر محکمہ تعلیم کو کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

خیر جاتے جاتے تمام اچھے اور ایماندار اساتذہ کو ہیپی ٹیچر ڈے کی وش قبول ہو۔ اللہ پاک ہم، آپ، سب کو اپنے پیشے سے مخلص ہوکر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button