کالمز

یورپ یاترا کا ایک اور دور

حمزہ گلگتی

بچپن میں سفر کی خواہش بہت ہوتی تھی۔تب یہ خیال آتا کہ دنیابھی گھوموں تو نہ تھکوں، سات سمندر پار بھی چلوں تو مسلسل سفر میں رہوں اور نظامِ ہستی دیکھنے کا لطف اٹھاؤں۔شایداُن دِنوں کی کوئی خواہش تھی یا بعد کا کوئی عمل جو رب کے حضور قبولیت کے درجے کو پہنچا،اور اب وہ پورا ہوتا ہو۔یورپ یاترا کا یہ چھٹادور ہے بہت سارے ملکوں اور شہروں کی خاک چھاننا نصیب ہوا، متعدد ایسے احباب سے ملنے کی توفیق ہوئی جنہیں زندگی گزارنے کے لئے آئیڈیل ماناجائے تو بیجا نہ ہوگا۔ہر بار اللہ کی زمین، نعمتوں سے پُرشہروں اور وادیوں کا نظارہ، کائنات کے مختلف گوشوں میں اللہ کی خلقت اور انسانی محنت و کاوش سے متاثر ہوکے رب کے حضورسربسجود ہونے کو دل چاہا۔

اب سفر سے تھوڑی گھبراہٹ بھی ہوتی ہے اور تھکاوٹ بھی، لیکن رب کا شکر کہ انسانی کاوشوں سے سہولیات اتنی کہ انسان دنگ رہ جائے۔لمبے اسفار میں طبعی ضروریات کے مطابق وسائل کی فراہمی سے اب طویل اسفار بھی آسان لگنے لگتے ہیں۔اس بار یورپ یاترا کے لئے دل میں کچھ نئے امنگ، عظیم خواہش، طویل منصوبے، کچھ نئے کی آرزو، بلندسوچ کے نئے زاویوں کادَرواکرنیکی جتن لے کر نکل پڑا ہوں۔دوستوں سے ملنے کی تمنا، ملک ملک گھومنے کی تڑپ اور نئے احباب سے ملنے کی خوشی کا احساس، سب سے بڑھ کر زندگی کے اس اہم موڑ کی تکمیل کے مرحلے کا جزبہ جس کے لئے یہ سب کرنا پڑا ہے۔

اس بار سفر کا یہ دورانیہ کچھ لمبا ہے۔اس میں کچھ اتفاقات اور کچھ پلان شامل ہیں۔تقریباً ایک ماہ مسافری کی حالت میں گزار کر منزل تک پہنچنا نصیب ہوگا انشائاللہ۔سیاحت کے لئے جنت جیسے مناظر سے مزین پھنڈر میں والدین عزیز وآقارب کے ساتھ بیتے دوماہ اور برفانی ماحول سے نکل کر گلگت، گلگت سے اسلام آباد وہاں دودن اسٹے کے بعد کراچی کیلئے روانگی، کراچی سے ایک ہفتے کے اندربراستہ شارجہ، آسٹریاکے مشہور شہر ویانا کاطویل سفر، وہاں سے ہنگری کے شہر بدھاپسٹ کی طرف رختِ سفر۔۔۔اگلے ایک ہفتے کے اندر بدھاپسٹ سے یورپ کے مشہور ملک بلجیئم کی تاریخی شہر برسلز کیلئے روانگی، برسلز سے فرانس یاترا اور چوبیس فروری تک وہاں سے واپس منزل کی طرف روانگی ہوگی انشائاللہ۔

سوچوں تو احساس ہوتا ہے کہ انسان اللہ کی عطاء اور اس کی رحمتوں کی ناشکری میں کمال درجے کو پہنچاہے۔ اس طویل ابتدائے کا مقصدبھی یہ کہ ہمارے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو، رب نے اپنی رحمت و عطاء سے انسان کو کیسے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے،دل شکر کے احساس سے مزین ہو اور انسان ہر حال میں رب کے حضور ان کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق حاصل کرے۔انسانی دماغ کے کمالات سے اللہ نے انسان کو اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے کہ انسانی ذہن ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔اور یہ بھی کہ اللہ کریم انسان کو ایسے مواقع بھی مہیا کرتا ہے جن کا وہ سوچا بھی نہیں ہوتااور نہ ہی کچھ ان کے وہم وگمان میں ہوتا ہے۔ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ مواقع ان کو نصیب کرتا ہے جو لمبے پلان بنانا، پھر ان کے تکمیل کی جستجو کرنا جانتے ہوں۔زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جہاں اللہ ہر انسان کو ایک رسکی موقع فراہم کرتا ہے۔یہ لمحہ اور موقع رسکی ہوتا ہے اور اس کے پیچھے کئی اقسام کے خوف شامل ہوتے ہیں جو انسانی فطری سستی کو سرعت سے ایکٹیوکرکے گھبراہٹ کا شکار بنادیتے ہیں، تب انسان وہ فیصلہ نہیں کرپاتا جس سے اسکی تقدیرنے بدلناہوتا ہے۔اس لمحے انسان اس خوف و گھبراہٹ کا شکارہوکے اور اس رسک کے پیچھے چھپے عوامل سے ڈر کے اگر فوراً فیصلہ نہ لے تو پھر وہ موقع کھوتا ہے۔اس کیلئے انسان کو قبل از وقت سوچ بچار کرکے ایسے مواقع اور سرعت کی فیصلوں کا ہنر سیکھنا چاہیئے۔آج کے نوجوان کچھ زیادہ تن آسان، اور لاپرواہ نظر آرہے ہیں جس سے ان کاخداداد ٹیلنٹ ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔آزاد سوچ اور آزادانہ فیصلوں کا نوجوانوں میں فقدان معاشرے کو جمود کا شکار بنادیتاہے۔اس لئے گزارش ہے کہ بیجا تن آسانی اور سستی سے دور رہنا چاہئے تاکہ زندگی میں کبھی کوئی مشکل فیصلہ کرتے ہوئے ہچکچانا نہ پڑے۔یہ بھی دیکھاگیاہے کہ وسائل کی بہتات سے ناشکری میں اسی قدر اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ ہر حال میں بہتری اور اچھے کی جستجو انسانی فطرت کا خاصہ ہے مگر اچھے کی جستجو میں موجود نعمتوں کی ناشکری بھی اب فطری کمزوری بن رہی ہے۔جس سے بچتے ہوئے ہمیں اچھے کی جستجو جاری رکھنی چاہیے۔

یورپین احباب میں بے شمار ایسے اچھے صفات پائے جاتے ہیں جنہیں اپناکر ہم دنیاوی واخروی طور پر بلند ہوسکتے ہیں۔اگرچہ وہاں موجود ہمارے متعدد احباب کی نظر ان کی ذاتی خرابیوں پر ہوتی ہیں اور ہم انہیں کا چرچا بھی کرتے ہیں اور ان سے بڑھ کر ان ذاتی برائیوں کو اپناتے بھی ہیں لیکن ان کے ان اوصاف اور ذاتی اچھائیوں کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ان صفات کا اور یورپ یاترا سے جڑے کچھ تجربات کا تذکرہ سردست کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔فلحال سفر کی حالت میں یہ منتشرخیالات آپ کی نظر۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button