کاش صاحب بہادرکی طبع نازک بھی ناساز ہو
تحریر: شکیل انجم ڈِرو
جناب، سنا ہے، ہمارے ملک کے ایک سابق حکمران کے لیے الگ اخبار چھپتا تھا، جس میں ”سب اچھا ہے” کا ذکر بہت عمدگی سے زیبِ قرطاس ہوتا تھا۔ اول اول اس بات پہ ہم قائل نہیں تھے، لیکن ہر گزرتے دن کیساتھ، ہمیں یقین ہوتا چلا گیا کہ کہ اس بات میں وزن بہت ہے۔ گلگت بلتستان کے حکمرانوں کی میز پر آج کل شاید کوئی ایسا ہی اخبار آتا ہو۔
مختلف پروجیکٹس کے فیتے کٹے ہوئے عرصے گزر چکے ہیں، تختیوں پر سے ٖحروف مٹ گئے ہیں اوپر سے کچھ اشتہار لگ کے پڑھنے میں کچھ ایسا آ رہا ہے ”وزیرِ حیوانات جناب بنگالی بابا نے کمپیوٹر سنٹر میں دیسی انڈیدیناشروع کیا۔ تکمیلِ پروجیکٹ چھ ماہ، ورنہ پیسے واپس“۔
کچھ عرصہ قبل جب دنیور تا قراقرم یونیورسٹی آر سی سی پل کا افتتاح ہوا تو عوام نے سکون کا ایک لمبا سانس لیا تھا کیونکہ بِرینو پل پر لگنے والی طویل اور بے چین کر دینے والی قطاروں سے لوگوں کی جان چھوٹی تھی۔ حکمران شاید عوام کو سکھی دیکھتے ہیں تو دکھی ہو جاتے ہیں۔ نہ جانے وہ کونسیمحرکات تھے جن کے سبب پچھلے سال کے اواخر میں یونیورسٹی کے عین نیچے سڑک پر سلائیڈنگ ہوئی اور ٹریفک مفقود ہوئی، تب جا کے صاحب بہادروں کو سکوں ملا۔
مجھے کبھی کبھار، بلکہ اکثر لگتا ہے، کہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والیکچھ انجینئرز اُردو کی کتابیں پڑھ کے انجینئرنگ کی ڈگری لیتے ہیں اور افسانوی طرز کی تعمیرات میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے، جہاں بارش کا پانی سڑک پر گرنے سے پہلے خشک ہو جاتا ہے، اسی نکتے سے نکاسی آب پر سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ یا یوں کہیے کہ سلائیڈنگ ہو کر پتھر، مٹی وغیرہ غبار بن کے اڑ جاتے ہیں لہٰذا حفاظتی تدابیر مثلاً پُشتی دیوار وغیرہ بنا کر خوامخوہ کے اخرجات نہیں کرتے، یا پھرطلسماتی کہانیوں کی طرح پتھر لڑھک کر ہوا میں معلق ہو جاتے ہیں۔
مدتوں سیاس سڑک پر مرمت کا کام انتہائی جانفشانی سے جاری ہے۔(یہاں مرمت سے مراد عوام کی ہے)۔ اللہ بھلا کرے حکمرانوں کا، عوام کی صحت کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں، بہانے بہانے ورزش کے مواقع مہیا کر رہے ہوتیہیں۔اب چونکہ یہ سڑک ٹریفک کے لئیمکمل بند ہے لہٰذا بہت سارے لوگ، پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ جس سے نہ صرف صحت بہتر ہورہی ہے بلکہ پیسے بھی بچ رہے ہیں۔ رہی بات، وقت کی، تو عوام کا وقت کونسا قیمتی ہے۔ جو فضول میں ضائع ہو ہاں البتہ حکمرانوں کا وقت بہت قیمتی ہوتاہے، عوام الناس سے جڑے بہت سے کام کرنے کے لئے مسلسل بھاگ دوڈ کرنا پڑتی ہے اس لیئے سرکاری گاڑی پر ایک عدد سائرن بھی لگا ہوتا ہے، جو حسبِ ضرورت سکول، ہسپتال وغیرہ کے باہر، اگر کوئی ادنا سا عوام سامنے آئے یا کسی پل یا چوراہے پر حقیر سا شخص چھوٹی گاڑی لے کے آئے تو صاحب بہادر کا ہر دم چوکس ڈرائیور فوری سائرن بجائے، ساتھ میں حقیر گاڑی والے کو محبت بھری بے نقط بھی سنائے کہ اس نے صاحب بہادر کے سامنے آنے کی جرا?ت کیسے کی۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر اُس چھوٹی گاڑی میں کوئی مریض ہوتا ہے۔جنہیں بروقت ہسپتال پہنچانا لازمی ہوتاہے۔
میں بات کر رہا تھا، یونیورسٹی روڈ کی مرمت کی۔ میری خواہش ہے کہ کوئی وزیر صاحب یا کوئی صاحب بہادر کسی لازمی کام سے سلطان آباد، دنیور سے گزر رہا ہو، سرکاری گاڑی اور ڈرائیور دستیاب نہ ہو، سالہا سال کی محنت کی کمائی سے خریدی ہوئی کوئی چھوٹی سی ذاتی گاڑی ہو۔ شام کا وقت ہو وزیر صاحب یا اس کے کسی قریبی عزیز کی طبیعت کافی سے زیادہ ناساز ہو ا ور اس وقت ڈاکٹر صرف آغا خان میڈکل سنٹر، واقع چھلم? داس میں دستیاب ہو۔ ذرا سوچیے کہ اِس عالم میں دنیور، سکوار، جٹیال سے ہوتے ہوئے چنار باغ پل پر پہنچنا ہے۔ شام کا وقت ہے تو بس ا?ڈ?ے سے ہیلی چوک تک شدید ٹریفک کی وجہ سے چیونٹی کی چال گاڑی چلانی ہے، چنار باغ پل پر گاڑیوں کی لمبی قطار ہے، سامنے سے ایک اور صاحب بہادر آ رہے ہیں کیونکہ کسی ووٹر کی شادی میں شرکت لازم ہے، جس کے لئیے پل پر موجود مستعد فورس نے ایک سائیڈ سے گزرنے والی گاڑیوں کو قطع کیا ہوا ہے۔ اندازہ کریں کہ اپنی چھوٹی گاڑی میں وزیر صاحب تفریح کے لئے نہیں بلکہ ہنگامی حالت میں جا رہے ہیں (یہ ایک الگ قصہ ہے کہ چھوٹی گاڑی میں ہونے کی وجہ سے وہ صاحب بہادر نہیں لگتے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں بڑا آدمی ہونے کے چند نشانیوں میں سے ایک نشانی بڑی گاڑی کا ہونا ہے)، گاڑی میں درد اور اذیت سے کراہتا وزیر کا عزیز ہے یا خود وزیر، چنار باغ پل سے جان چھوٹی تو اللہ اللہ کر کے یونیورسٹی تک پہنچے۔ یونیورسٹی تا آغا خان میڈکل سنڑ کی سڑک ماشااللہ سے قدیم تہذیب اور اثارِ قدیمہ کی زندہ مثال ہے۔ اس سڑک پر مجال ہیکہ جدیدیت آپ کو چھو کے بھی گزرے۔ کسی پرانے بادشاہ کے دور میں یہاں تارکول نام کی کوئی گستاخی ہوئی ہو گی، لیکن حالیہ صاحب بہادروں نے اس گستاخی کو دوہرانے کا خیال ہی دل سے نکالا ہے۔ تو جناب سلطان آباد دنیور سے شروع ہونے والا یہ سفر بلکہ سقر اذیت تقریباً 2گھنٹوں میں مکمل ہوا، تب تک میریض کی حالت! وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب ذرا سوچیے، اگر دنیور تا یونیورسٹی روڈ کھلا ہوتا تو یہ 2گھنٹے کا اذیت ناک سفر 10سے 15 منٹ میں پورا ہوتا، نہ مریض کو تکلیف، نہ اضافی پٹرول کا خرچہ، نہ وقت کا ضیاع۔
اور یقین جانیے اگر واقعی میں کسی صاحب بہادر کیساتھ ایسا ہو تو دوسرے ہی دن مرمت کا کام مکمل ہو کے سڑک ٹریفک کے لئے ہمیشہ کے لیے واہ ہو گی، لیکن کاش ایسا کسی صاحب بہادر کیساتھ ہو تب نا!
ہم سمجتے ہیں کہ تعمیر و مرمت کا کام وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے مرحلوں پر کچھ تکالیف بھی سہنے پڑتے ہیں، لیکں یہ تکلیف صرف غریب عوام کے نصیب میں ہی ہر دفع کیوں؟ مرمت کے کام میں تاخیر اور مجرمانہ غفلت کیوں؟ سڑک کا اور دیگر پروجیٹکس کا سروے کرتے وقت ممکنہ خطرات اور ان جیسے دیگر عوامل کا ادراک کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔ کیا سروے کے لیے ہوش و حواس سے بے بہرہ ہونا اس کام کا ضابطہ ہے یا جان بوجھ کے ایسے کام کیے جاتے ہیں کہ بعد میں مرمت کا کام (بلکہ نام) ہو اور پھر پھیلتی ہوئی جائیدادیں۔کیا ہمیں اُس دِن کا خیال نہیں آتا جس دن صاحب بہادروں کو بھی غریب عوام کے ساتھ اپنے اعمال کا حساب دینا ہوتا ہے۔ جہاں صرف آپ کے اعمال ہی آپ کی آخرت کی زاد راہ ہوتے ہیں
عام عوام جن کی بدولت موصوف صاحب بہادر بن بیٹھے ہیں، کو اپنی آواز اونچیایوانوں تک پہنچانے کے لئے مرنا کیوں پڑتا ہے؟
وہ کر نہیں رہا تھا میری بات کا یقین
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے۔