کالمز

گلگت بلتستان زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا

تحریر: دردانہ شیر

گلگت بلتستان پاکستان کا وہ جنت نظیر خطہ ہے جسے دیکھنے نہ صرف ملکی بلکہ بیرونی دنیا سے بھی ہزاروں سیاح کھینچے چلے آتے ہیں۔ اب توہمارے ملک کو سیاحت کے لئے دنیا کے بہترین ممالک میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ امید ہے کہ مزید لاکھوں سیاح گلگت بلتستان کا رُخ کریں گے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سال تیس لاکھ کے لگ بھگ سیاح گلگت بلتستان پہنچے تھے۔ یہاں آنے والے سیاح خطے کے پرفضا مقامات کا نظارہ کرکے بہت خوشگوار یادیں لیکر اپنے علاقوں کا رخ کرت ہیں۔
 
پاکستان کے اس شمالی خطے میں گزشتہ تین چار سالوں کے درمیان سیاحوں کی آمد کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے جس کی اصل وجہ یہاں کا پر امن ماحول اور خطے کے وہ خوبصورت مقامات ہیں جن کو دیکھ یہاں آنے والے سیاح خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک ان علاقوں میں آنے والے سیاحوں ملنے والی سہولتوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے وفاقی حکومت کواقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر خطے کے بالائی علاقوں میں آنے والے سیاحوں کو رہائش کے حوالے سے سخت پریشانیوں کا سامنا ہے اس حوالے سے تاحال حکومت نے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔
 
گلگت بلتستان میں سیاحوں کی سہولت کے لئے جو ٹورسٹ پکنک پوائنٹ بنائے گئے تھے ان میں سے بہت سارے اب آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ کروڑوں کی لاگت سے بنائے گئے پکنک پوئنٹ عرصہ دراز سے لاوارث پڑے ہیں اور ان کی نگرانی کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ غذر میں بھی اس طرح کے ایک درجن کے قریب ٹوراسٹ پکنک پوائنٹ موجود ہیں جن کی تعمیر مکمل ہوئے کئی سال گزر گئے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
 
ہمارے صوبائی وزیر سیاحت فداخان فدا کا کہناتھا کہ 2020میں گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ جو پکنک پوائنٹس بنے ہیں ان کو بھی استعمال میں
لایا جائے گا اور سرکاری ریسٹ ہاوس بھی ضرورت پڑنے پر سیاحوں کی سہولت کے لئے استعمال کیے جائیں گے۔
سب ٹھیک رہا تو رواں سال ایک اندازے کے مطابق چالیس لاکھ کے قریب سیاح گلگت بلتستان کا رخ کرینگے. اس حوالے سے وفاقی حکومت او ر محکمہ سیاحت کو ابھی سے ہی سیاحوں کو سہولہتں پہنچانے کے لئے اقدامات اٹھانے ہونگے۔ گلگت بلتستان کی سڑکوں کی بہتری کے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس وقت داسو سے چلاس تک شاہراہ قراقرم مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور نوے کلومیٹر کا سفر چار سے پانچ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اگر اس شاہراہ کی تعمیر اور مرمت ہو تو سیاحوں کوآمدورفت کے سلسلے میں بڑی آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ شاہراہ قراقرم کے علاوہ گلگت چترال روڈ کی توسیع و مرمت بھی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ سڑک شاہراہ قراقرم کے متبادل کے طور بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی سیاح چاہے تو اسلام آباد سے گلگت اور وہاں سے غذر کے راستے ہوتے ہوئے واپس براستہ چترال و دیر اسلام آباد پہنچ سکتا ہے۔  اس شاہراہ کی تعمیر اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ہر سال شندور میلے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ 
گلگت بلتستان زمین پر ایک جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں ہے یہاں کی آبشاریں،فلک پوش پہاڑ،نہگوں اسمان،سرسبزوشاداب وادیاں یہاں آنے والے سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ اگر وفاقی حکومت اور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات اٹھائے تو اسی شعبے کی مدد سے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
گلگت بلتستان کے بیروز گار نوجوانوں کو حکومت چھوٹے چھوٹے ہوٹل تعمیر کرنے کے لئے آسان اقساط پر قرضے فراہم کرے تو ایک طرف خطے سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا اور دوسری طرف سیاحوں کو رہائش کے لئے سہولیات بھی دستیاب ہونگی۔
اس خطے کی اہم خوبی یہ ہے کہ یہاں کے عوام نہ صرف پر امن ہیں بلکہ مہمان نواز بھی ہیں اس کے علاوہ یہاں کے چاروں موسم یہاں آنے والے سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں سردیوں کے موسم میں یہاں آنے والے سیاح نہ صرف برف باری سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ غذر میں موجود مشہور خلتی کی منجمید جھیل کے اوپر فٹ بال میچ کھیل کر خوب انجوائے کرتے ہیں اس کے علاوہ بہار کے موسم میں لوگ چیری بلاسم کے موسم کو انجوائے کرنے جاپان چلے جاتے ہیں حالانکہ مارچ اور اپریل کے موسم میں یہاں کے چیری بلاسم اور خوبانی بلاسم سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں اس کے علاوہ گرمیوں کے موسم میں یہاں کے صاف وشفاف پانیوں میں پائی جانے والے ٹراوٹ مچھلی کے شکار کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے خزاں کے اپنے رنگ ہیں اگر ان تمام موسم کو انجوائے کرنا ہے تو ملک اور بیرونی دنیا کے ہر شہری کو گلگت بلتستان کا رخ کرنا ہوگا تاکہ ان کو پتہ چلے کہ قدرتی حسن سے مالامال یہ خطہ جس کو پاکستان کے سر کاتاج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاقدرت نے اس خطے کو کتنا خوبصورت اور حسین بنا دیا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button