وفاق گلگت بلتستان کے لئے مجوزہ پاور پالیسی منظور نہیںکررہا، جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ بڑھ رہی ہے، وزیر اعلی
اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت وفاقی انوسمنٹ بورڈ کا اجلاس ہوا اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن اور اعلی حکام نے شرکت کی،اجلاس کو وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے بتایا کہ گلگت بلتستان کو آرڈر 2018کے تحت اختیارات ملے تھے کہ صوبہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے 100میگاواٹ کے توانائی کے منصوبے لگا سکتا ہے اس حوالے سے گلگت بلتستان حکومت نے پاور پالیسی منظور کر کے وفاق کو ارسال کی تھی جس کی منظوری تا حال نہیں مل سکی جس کی وجہ سے گلگت بلتستان لوڈ شیڈنگ کی زد میں بھی ہے اور سیاحتی شعبہ بھی متاثر ہے،
وزیر اعلی نے کہا کہ 2012میں اس وقت کی گلگت بلتستان کونسل کے ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنی جس کی سربراہی امجد ایڈوکیٹ کر رہے تھے نے ایک ایسا عوام دشمن معاہدہ کیا ہے کہ جس کے تحت گلگت بلتستان میں بننے والی بجلی کے پیدوار کے نیٹ منافع میں سے تیس فیصد وفاق کو ملے گا اس معاہدے کو آڑ بنا کر وفاق کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان بجلی کے منافع کے تیس فیصد وفاق کو دے تو پاور پالیسی منظور ہوگی،یہ سراسر گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ظلم ہے،ہونا تو یہ ہے کہ وفاق بجلی کی مد میں صوبوں کو رقم دیتا ہے یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے ایک عوام دشمن معاہدے کو آڑ بنا کر ہم سے رقم کا مطالبہ ہو رہا ہے حالانکہ آرڈر 2018کے نفاز کے بعد یہ معاہدہ اپنی حیثیت کھو چکا ہے اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے لئے جو پاور پالیسی وفاق نے ترتیب دی ہے وہی پالیسی گلگت بلتستان کے لئے مرتب کی جائے جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور گلگت بلتستان کے لئے بھی وہی پاور پالیسی ہوگی جو آزاد کشمیر میں نافذ ہے.
وزیر اعظم نے متلقعہ محکمو ں کو ہدایات جاری کر دی کہ گلگت بلتستان کے لئے پاور پالیسی کی جلد منظوری دی جائے تا کہ بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکے،وزیر اعلی نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کی ہی وجہ سے سیاحتی شعبے میں پاکستان کو پسندیدہ ملک قرار دیا گیا ہے لیکن گلگت بلتستان میں بجلی کے بحران اور توانائی کے دیگر زرائع نہ ہونے کہ وجہ سے سیاحت کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے،گلگت بلتستان میں جب تک سال بھر کے لئے سیاحت کے مواقع پیدا نہیں کئے جاتے سیاحت کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری ممکن نہیں اس حوالے سے صوبائی حکومت نے انفراسٹیکچر مکمل کیا ہے رکاوٹ صرف یہ ہے کہ توانائی کے زرائع نہیں اس کے لئے وفاق کردار ادا کرے،پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت سپیشل اکنامک زون جو مقپون داس میں بننا ہے اس کے لئے فزیبلٹی رپورٹ بن چکی ہے زمین مختص ہو چکی ہے اس میں سرمایہ کاری کے لئے دوسرے صوبوں کی طرح سرمایہ کار اس لئے نہیں آرہے ہیں کہ گلگت بلتستان کی آبادی کم ہے اور توانائی کے زرائع بھی محدود ہیں اس لئے گلگت میں سپیشل اکنامک زون وفاق اپنی پی ایس ڈی پی کے تحت تعمیر کرے اور یہاں انڈسٹری کے لئے توانائی کی پیداوار بھی ضروری ہے اس کے لئے 48میگاواٹ پر مشتمل پاور منصوبے کا بھی وفاقی پی ایس ڈی پی کے تحت منظوری دی جائے،وزیر اعلی کی مطالبات اور تجاویز پر فورم نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے وزیر اعلی نے جو مطالبات پیش کئے ہیں وہ جائز ہیں جس پر وزیر اعظم عمران خان نے ہدایات جاری کر دیں ہیں کہ پاور پالیسی میں گلگت بلتستان کو وہی اختیارارت دئے جائیں جو آزاد کشمیر کو حاصل ہیں اور گلگت بلتستان کو سی پیک کے ثمرات سے مستفید کرنے کے لئے گلگت میں سپیشل اکنامک زون کی تعمیر کے لئے وفاقی پی ایس ڈی پی سے رقم فراہم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔