ذکر گلگت بلتستان کی ایک دلیر لڑکی کا
تحریر: ظفر احمد
مردوں کے معاشرے میں گھر کی چاردیوری سے باہر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی خواتین یقیناً باہمت ہیں۔ تاہم میرے نزدیک وہ خواتین حقیقی معنوں میں ایمپاورڈ ہوتی ہیں جو "رسموں کا بت توڑ کر اور بند قدامت سے نکل کر” ظالم سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے طرز پر زندگی گزارتی ہیں۔ گوجال گلگت بلتستان سے تعلق رکھنی والی نلیمہ آمیر انھی دلیر لڑکیوں میں سے ایک ہے۔
نلیمہ سے جان پہچان تب ہوئی جب ہم نے پشاور یونیورسٹی میں گریجویشن کے لیے داخلہ لیے۔ یہ عمر کا وہی دور تھا جب کلچر میں موجود میساجینی اور پدر سری اقدار ہم سب کی شخصیت کے مستقل حصہ بن چکی تھیں۔ بند گوبھی سے بھی زیادہ بند ذہنوں کو لے کر ہم نکلے تھے پڑھنے کے لیے سوشیالوجی۔ ایسے میں سوشیالوجی کے تھیوریز کیا برٹرینڈ رسل کی روح بھی لوٹ کر ہمارے بند ذہنوں کو نہیں کھول سکتی تھی۔
ہمیں یقینِ پختہ تھا کہ توہمات اور روایات میں ڈوبے ہمارے عقیدے پتھر پر لکیر کی طرح سچ تھے، جن سے ٹکرا کر کوئی بھی فلسفہ اپنی افادیت کھو بیھٹتی۔ ہم کسی بھی تھیوری کو پڑھنے سے پہلے ہی رد کر دیتے۔ فیمنیزم سے متعلق کوئی بھی دلیل ہمارے مردانگی کی غیرت پر وار ہوتی۔ پورے کلاس میں صرف ایک ہی سٹوڈنٹ پروفیسر کی جانب سے پڑھائے جانے والی تھیوریز کی دفاع میں ڈٹی رہتی۔ گویا پورا کلاس ایک جانب اور ایک لڑکی دوسری جانب جس کی دلائل بسا اوقات سب پر بھاری پڑھ جاتے۔
دلیل کے مقابلے میں جب ہمارے مائتھالوجی سے سیکھی ہوئی واہیات کمزور پڑھ جاتیں تو مذہب کو اپنی مردانگی کی ڈھال بنا لیتے۔ وہ لڑکی چیڑ کر سمجھاتی کہ جن دلیلوں کو ہم مذہب سے متصادم سمجھتے ہیں وہ دراصل مذہب کو نہیں بلکہ ہمارے قبائلی اقدار کو چیلنج کرتی ہیں۔ واقعی ایسا ہی تھا آج خواتین مارچ کے خلاف ایسے ہی پروپیگنڈوں سے مخالفت کی جا رہی ہے۔ جب دلیل ختم ہوتی تو ہم ذاتیات پر اتر جاتے۔ یوں ہم نانا نانی کی باتوں سے آغاز کرتے اور سازشی تھیوریوں سے ہوتے ہوئے کپڑوں پر بحث کو لپیٹ لیتے۔ ان سب کے باوجود وہ اکیلی لڑکی اپنے موقف پر ڈٹی رہتی۔ دلائل کو سنی ان سنی کرنے کے باوجود ہمارے بند ذہنوں کے دریچے دن بہ دن ڈھیلے پڑ رہے تھے۔
ہم میں اکثر کو بہت سی چیزوں بشمول اس سادہ سی لاجک یعنی "کپڑوں کا تعلق کلچر سے ہے نہ کہ اخلاقیات سے” کو سمجھنے میں چار سمسٹرز لگ گئے۔ دوسری طرف نلیمہ کی شخصیت پہلی ہی صحت مند اقدار سے لیس تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ سب کچھ پہلے ہی پڑھ کر آئی تھی یا ہم سب سے زیادہ پڑھتی تھی بلکہ اس کی شخصیت میں ان کے والدین نے خود اعتمادی بھری تھیں۔ اس نے یہ یہی سیکھا تھا کہ بیٹیاں بھی بیٹوں کے برابر ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ نتیجتاً وہ پُر اعتماد تھی۔
ہم اپنی بچیوں کی تربیت مردانہ معاشرے کے مطابق کرتے ہیں جس سے بچیوں میں خود اعتمادی نام کی چیز ختم ہو جاتی ہے۔ ہم محبت اور عورت کا مقام اسی میں سمجھتے ہیں کہ خواتیں کمزور رہ کر ہمارے محتاج رہیں۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی حفاظت کے لیے سیکورٹی بن جاتے ہیں۔ مگر نلیمہ ایسی نہیں تھی اسے کسی مرد سیکورٹی گارڈ کی چندان ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ خود بنا مرد سیکورٹی گارڈ کے کہیں آ اور جا سکتی تھیی۔ یونیورسٹی میں اکثر لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر آوازیں کستے ہیں، وہ ایسے لڑکوں کی خوب کلاس لیا کرتی جنھیں راستے میں خواتین کو دیکھ کر مردانگی کی نمائش کرنے کا شوق ہوتا۔
یونیورسٹی سے گریجویشن کرتے ہی نلیمہ آمیر گلگت بلتستان کی پہلی خاتون میجسٹریٹ منتخب ہوئی۔ یہ اپنے ماں باپ کا ایسا ہی سہارا ہے جس طرح ہمارے ہاں بیٹوں سے توقع کی جاتی ہیں۔ یہ کسی بھی مرد جتنا ہی اچھا ایڈمنسٹریٹر ہے۔ ہم سے اکثر مردوں کو گلہ ہوتا ہے کہ اگر برابر ہیں تو خواتین کارڈز کے استعال کی کیا جواز بنتی ہے؟ نلیمہ نے کبھی خاتون کارڈ کا استعمال نہیں کی؛ نہ یونیورسٹی میں اور ہی پروفیشنل لائف میں۔
ہم مرد بھی عجیب ہیں پہلے خواتین کو محروم کرکے انھیں اپنا اور اسپیشل حقوق کا محتاج بناتی ہیں اور پھر اسی کو اپنی برتری کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ عورت ہمارا فرمانبردار اور مردانہ اصولوں کے آگے سر تسلیم خم کر لے تو ٹھیک ورنہ ہماری مردانگی پر حملہ۔ نلیمہ ان خودمختار لڑکیوں میں سے ہے جو مردوں کے آگے سر جھکانے کی بجائے قدم سے قدم ملا کر ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایڈمنسٹریٹو پوزیشن میں نلیمہ آج جہان میساجنسٹ مردوں کی مردانگی کو چلنچ کرتی ہونگی تو وہاں گاؤں کی لڑکیوں اور والدین کو بھی یہ پیغام دیتی ہونگی کہ لڑکیاں کمزور نہیں ہیں اور یہ کہ خاتون ہر وہ کام کر سکتی ہے جو ایک مرد کر سکتا ہے۔
جنڈر اور سوشیالوجی پڑھ کر ہم مردانگی کے بت کو توڑوا بیٹھے۔ اسی مردانگی کو جو کوئی ایسی خصوصیت نہیں جسکی مضبوطی کے لیے دیواروں پر اشتہارات دیے جاتے ہیں بلکہ یہ مردوں میں وہ غرور اور تعصب ہے جو عورتوں کو محکوم اور مردوں کے محتاج دیکھنے کا عادی ہے۔ بہت سے دوست اور ناقدیں عورتوں سے خاص ہمدردی کی وجہ پوچھتے ہیں۔ سچ کہا جائے تو ہمیں خود مردوں سے ہمدردی ہے جو مردانگی کی چکر میں خود کو انسان سے کوئی اور ہی مخلوق سمجھنے بیٹھے ہیں۔ ہم اس نظریے کے بالکل مخالف ہیں جہاں عورت کو محروم اور کمزور رکھ کر مرد اپنی برتری کے وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب ساتھ جینا ہی تو تو مل کر قدم سے قدم ملا کر چلنے میں ہی دونوں کی بقا ہے۔ رہی بات "عورت مارچ” اور خواتین کارڈز” کی، تو جس دن ہم برابری تسلیم کرکے برابر کے حقوق دینگے تو یہ دونوں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔
وہ تمام مرد اور والدین جو عورت کو کمزور سمجھنے کی ذہنی فرسودگی میں مبتلا ہیں، انھیں ایک بار نلیمہ جیسی لڑکیوں سے ضرور ملنا چاہیے۔