کالمز
مقدمہ گلگت بلتستان : الجہاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ کا فیصلہ
|
تحریر۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت بلتستان کی آیئنی حثیت کے تعین اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سال 1994 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دو آیئنی پٹیشنز دائر کی گئیں، جن کی سماعت چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے کی اور 28 مئی 1999 میں اس مقدمہ کا فیصلہ صادر کیا گیا اور یہ کیس الجہاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان کے نام سے 1999 SCMR صحفہ نمبر 1379 میں رپورٹ ہوا ہے۔
گلگت بلتسان کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور ایک آزاد عدلیہ کے زریعے انصاف تک رسائی کے لیے سپریم کورٹ نے وفاق پاکستان کو چھ ماہ کی مدت کے اندر اندر اس مقدمے کے فیصلہ پر عمل درامد کرنے کا حکم دیا تھا لیکن بیس سال گزرنے کے باوجود تاحال اس فیصلہ پر عملدرامد نہیں ہوسکا.
آفس آف یونایئڈ نیشنز ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی 14 جون 2018 میں جموں اینڈ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر شائع کردہ رپورٹ کےصفحہ نمبر 42 پیرگراف 42 میں اس فیصلے کے بابت لکھا ہے کہ سال 1999 میں پاکستان کے سپریم کورٹ نے اسلام اباد کو حکم دیا تھا کہ وہ بنیادی آزادیوں کو چھ ماہ کے اندر شمالی علاقہ جات تک بڑھائے اور اگست 2007 میں یورپین پارلیمنٹ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ناردرن ایریاز میں ائینی شناخت کے ساتھ سول رایئٹس کی بھی مکمل طور پرعدم موجودگی ہے اور لوگوں کو غربت ‘ناخواندگی اور پسماندگی میں رکھا گیا ہے.
یورپی یونین کی اس سخت رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد پاکستانی حکام نے گلگت بلتستان میں Gilgit Baltistan Empowerment and Self Governance Order 2009 نافذ کیا اور حکومت پاکستان نے بار بار دعوی کیا کہ اس ارڈر سے گلگت بلتستان کے باشندگان کو داخلی خودمختاری مل جائے گی.
تاہم حقیقت میں ایسا ممکن نہیں تھا چونکہ درحقیت 2009 کا آرڈر ایک Disempowerment آرڈر تھا.
ہیومن رایئٹس کمشن اف پاکستان کے مطابق ,
According to HRCP ,the 2009 order doen t guarantee the right to a fair trail, protection against double punishment and self in-crimination , right to education ,right to information.
یہ آرڈر درحقیت سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999 کے فیصلہ کی روح کے منافی تھا اس لیے
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرامد ہونے کی وجوہات پر گلگت بلتستان کے وکلا برادری میں ایک بحث اور جدوجہد جاری تھی کہ اسی اثنا 17 جنوری ٢٠١٩ کو گلگت بلتستان کی آیئنی حثیت اور بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں سپریم کورٹ اف پاکستان کی سات رکنی بنچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک تاریخی فیصلہ صادر کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو متنازع اور ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا۔
دوسری طرف گلگت بلتستان کی قانونی اور آئینی حثیت کے متعلق گلگت بلتستان کے سیاستدانوں ، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت لاعلم ہے اس لیے گزشتہ ستر سالوں سے مسلہ کشمیر سے تعلق کو جواز بنا کر گلگت بلتستان کے عوام کو کامیابی کے ساتھ حق ملکیت اور حق حاکمیت سے محروم رکھا گیا ہے جب کہ گلگت بلتستان کے وکلاء برادری کا ایک حصہ اس فیصلہ کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس پر عملدرآمد لازمی قرار دیتا ہے حالانکہ عوام خصوصاً گلگت بلتستان کے دانشوروں کی اکثریت اس فیصلہ سے لاعلم ہے اس لیے
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس فیصلے میں درج قانونی بحث کو عوامی عدالت میں پیش کی جائے تاکہ قانونی حقائق سے آگاہی ہوسکے۔
١٩٩٩ کے اس فیصلہ کے پیرگراف نمبر 1 میں چیف جسٹس اجمل میاں نے لکھا ہے کہ الجہاد ٹرسٹ اور باشندگان ناردرن ایریاز نے ان پٹیشنز میں کئی ایک داد رسیوں کی استدعا کی ہے۔
لہذا یہ فائدہ مند ہوگا کہ مندرجہ بالا آیئنی پیٹیشنز میں استدعا کی گئی ان داد رسیوں کو reproduce کیا جائے۔
Reliefs prayed for in CP 11 of 1994.
اندریں حالات استدعا ہے کہ باشندگان شمالی علاقہ جات کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ فرمایا جائے اور مسئول علیہم کو حکم فرمایا جائے کہ:-
١۔ شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کے باشندگان کا حق حکمرانی بحال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ان کی نمایئندگی کا انتظام کیا جائے جس کے لئے ضروری قانون سازی بھی کی جائے_ بصورت دیگر باشندگان علاقہ کو حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال کے زریعے اپنی اسمبلی قایم کرنے ،اپنے علاقے کا نظم نسق خود سنبھالنے اور اپنے معاملات خود طے کرنے سے نہ روکا جائے۔
٢۔جب تک انہیں اپنےمنتخب نمایندوں کے زریعے فیصلے کرنے کا حق نہیں مل جاتا اس وقت تک ان سے کسی قسم کا ٹیکس، محصول یا ڈیوٹی وغیرہ وصول نہ کی جائے۔
٣۔ اگر شمالی علاقہ جات پاکستان کے حدود میں شامل نہیں ہیں تو کسٹم چیک پوسٹ سوست کے مقام سے ختم کرکے پاکستان کی سرحد پر قایم کی جائے اور شمالی علاقہ جات تجارتی یا زندگی کی ضرورتوں سے متعلق استعمال کی دوسری اشیا کی دوسرے ممالک خصوصا چین سے امدورفت میں مداخلت نہ کی جائے اور نہ ہی کسٹم دیوٹی وصول کی جائے۔
۴۔دفاعی مقاصد کے لئے مسلح افواج کے اقدامات کے سوا حکومت پاکستان کے نافذ کردہ نام نہاد قوانین، احکامات،اقدامات، اور نوٹیفیکیشن وغیرہ منسوخ کئے جائیں۔
۵۔مسلح افواج کے سوا جملہ پاکستانی حکام واپس بلائے جایئں اور نظم و نسق وغیرہ کے امور باشندہ گان علاقہ کے سپرد کئے جائیں۔
مزید کوئی داد رسی جو حالات مقدمہ کے تحت ضروری خیال فرمائی جائے عطا کی جائے۔
جبکہ دوسری آیئنی درخواست نمبر 17/1994 میں استدعا کی گئی کہ انسانی حقوق کے ڈیکلریشن کو مدنظر رکھتے ہوئے آیئن پاکستان کے ارٹیکل 184 (4) کےتحت بنیادی حقوق نافذ کئے جائیں اور ناردن ایریاز کے باشندگان کے آیئنی سٹیٹس کو پاکستانی شہری قرار دیکر ان کو فیڈریشن اف پاکستان میں مکمل نمایندگی دی جائے اور سایئلان کو پاکستان کے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے، نظر ثانی کرنے ریویژن کرنے کا حق دیا جائے۔
شمالی علاقہ جات کو صوبائی حکومت کا درجہ عطا کیا جائے ۔
اس کیس کی قانونی پچیدگیوں کو سمجھنے کے لئے کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں چند اہم سوالات پر بحث کی گئی جن میں بنیادی سوال یہ تھا کہ آیا ناردن ایریاز کے لوگوں کو آیئن پاکستان کے تحت اپنے بنیادی حقوق طلب کرنے کا حق حاصل ہے؟
کیا وفاق پاکستان شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کے لوگوں کو بنیادی حقوق مہیا کرنے سے انکار کر کے اپنی آیئنی زمہ داریاں پوری نہیں کررہا ہے؟
ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ بات سمجھ نہ آنے والی ہے کہ کن بنیادوں پر شمالی علاقہ جات کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے انکار کیا جاتا ہےجن حقوق کی ضمانت آیئن دیتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں لکھا کہ بنیادی حقوق کی دو اقسام ہیں پہلی قسم کے حقوق میں شخصی حقوق شامل ہیں۔
آیین پاکستان1973 کے تحت ارٹیکل ٩،١٠،١١،١٢،١٣،١۴،٢١،٢٢،٢۴ یہ وہ ارٹیلز ہیں جو شہری اور غیر شہری کے درمیان تفریق نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ ارٹیکلز شخص کی بات کرتے ہیں،
جبکہ حقوق کی دوسری قسم جو کہ صرف ملک کے شہریوں سے متعلق ہیں جن میں آئین کے ارٹیکل نمبر ١۵ تا ٢٠ اور ارٹیکل ٢٣، و ٢۵ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے پیرگراف نمبر چودہ میں لکھا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ناردرن ایریاز میں ادارے بحثیت defacto Exective, defacto legislature اور Defacto judiciary کام کرتے ہیں اس لیے ان ارداروں کے Acts قانونآ درست ہیں،
وفاق نے دلیل دی کہ ان علاقوں پر
Doctrine Of De-Facto Administration
لاگو ہوتا ہے۔اور پاکستان نے ناردن ایریاز پر گزشتہ پچاس سالوں سے موثر طریقے سے کنٹرول جاری رکھا ہے اور بحثیت فرما رواں کام کر رہا ہے۔اور وفاق نے یہ بھی کہا کہ اس پوزیشین کو بین الاقوامی برادری خاص کر اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔
وفاق پاکستان کے جواب دعوئ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شمالی علاقہ جات ( گلگت بلتستان ) کے لوگوں کے پاس پاکستان کی شہریت اس حد تک ہے کہ ان کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کئے گیے ہیں اور ان کے لیے پاکستانی تعلیمی اداروں اور وفاقی حکومت میں ملازمتوں کا کوٹہ مختص ہے۔
پاکستان کے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے زیادہ تر قوانین کا اطلاق پاکستان شمالی علاقہ جات پر سال 1947سے1999 تک بزریعہ مختلف نوٹیفیکشنز وقتا فوقتا کرتا رہا ہے۔
پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ ١٩۵١ بذریعہ Adoptation Order 1981 کو شمالی علاقہ جات میں 20/6/1979 اور ٣٠/٩/١٩٨١ میں بزریعہ نوٹیفیکشن ڈپٹی سیکریٹری کشمیر افیرز /ناردرن ایریاز کے زردیعے لاگو کیا گیا۔
سپریم کورٹ اف پاکستان نے لکھا کہ چونکہ پاکستان کے زیادہ تر قوانین ناردرن ایریاز میں لاگو ہیں بشمول سٹیزن شپ ایکٹ اف پاکستان اس لیے ناردرن ایریاز کے لوگ پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح بنیادی حقوق مانگ سکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ ٹیکس ادا کرنے اور دیگر محصولات مکمل طور پر لاگو ہو تو ادا کرنے کے پابند ہیں۔
سپریم کورٹ نے لکھا کہ ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رایٹس جس کا پاکستان Signatory ہے اس کے تحت بھی انسانوں کی نسل ، حیثیت اور ماخذ کے بنا ہی انسانوں کے کچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔ جس بارے میں ارٹیکل ا تا ١٠ اور ١٣ ، ١۵ و ٢١ کے بابت یونیورسل ڈیکلریشن کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے آئین میں درج بنیادی حقوق یونیورسل ڈیکلیریشن میں درج مندرجہ بالا حقوق کی عکاسی کرتے ہیں، جو کہ انٹرنیشنل کنونشن اف سول اینڈ پولیٹیکل رایئٹس ، یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق اور امریکی کنونشن برائے انسانی حقوق کے مطابق ہیں۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ کسی ملک میں بنیادی حقوق کو اس وقت معطل کیا جاتا ہے جب بیرونی جارحیت اور بیرونی خطرے کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کی گئی ہو۔
ایسی صورتحال کے متعلق ایک لاطینی محاورہ ہے کہ when there is an armed conflict , the law remain silent .یا قومی جنگ میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے تاکہ لوٹ مار اور غلامی سے بچایا جاسکے، یہاں تک کہ اس کے حصول کے لئے افراد کی آزادیوں اور شہریوں کے دیگر حقوق کو قربان کیا جاسکتا ہے، مگر شمالی علاقہ جات میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ یونیورسل ڈیکلریشن اف ہیومن رایٹس کے مندرجہ بالا ارٹیکلز اور موجودہ مقدمے میں بہت مطابقت ہے۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی اور تحفظ میں بذریعہ استصواب رائے ہونی ہے اور اقوام متحدہ نے ہی یونیورسل ڈیکلیریشن اف ہیومین رایئٹس کی سرپرستی کی ہے۔
اس لیے یہ بات طے ہے کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح ائین پاکستان میں درج بنیادی حقوق کا مطالبہ کریں۔اس کورٹ کا یہ ماننا ہے کہ انصاف تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔
اور یہ حق ایک آزاد عدلیہ کی غیرموجودگی میں جاری نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
آزاد عدلیہ جو غیر جانبدار ، منصفانہ اور Adjudicatory frame work انصاف اور عدل ہو
یعنی ایک جوڈیشل درجہ بندی موجود ہو۔
ایسی عدالیتں اور ٹرابیونلز جنھیں افراد اور ایگزیکٹیو کے زدیعے چلائی جاتی ہو مشکل سے ہی کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے۔
آیین پاکستان کے ارٹیکل 2A میں بیان کیا گیا ہے کہ ریاست عوام کے منتخب نمایندوں کے زریعے اپنے پاور اور اتھارٹی کو استتمال کرتی ہے۔
جہاں جمہوریت کے اصول آزادی،مساوات،برابری،صبر،, عدل اور سماجی انصاف جنھیں اسلام نے واضح طور پر بیان کیا ہے جن پر مکمل طور پر عمل کیا جاۓ.
آئین پاکستان کے ارٹیکل 2A اور 17 کے تحت شمالی علاقہ جات کے لوگ اپنے علاقے پر حکومت کرنے کے حقدار ہیں اور ایک آزاد عدلیہ کے زریعے اپنے بنیادی حقوق کو لاگو کرنے کے حقدار ہیں۔
اس فیصلے کے پیراگراف نمبر ٢٦ میں لکھا گیا ہے کہ چونکہ ناردرن ایریاز (گلگت بلتستان) کی جغرافیائی حدود بہت حساس ہیں اور اس علاقے کے بارڈرز انڈیا، چین، تبت اور USSRسے ملتے ہیں اور اس علاقے کو ماضی میں بھی مختلف طریقوں سے چلایا گیا ہے لہذا عدالت یہ فیصلہ نہیں کرسکتی ہے کہ کس طرح کا نظام حکومت اس علاقے کو مہیا کر کے آئین کے مندرجہ بالا اختیار کی تعمیل کی جا سکتی ہے۔
نہ ہی یہ عدالت یہ حکم دے سکتی ہے کہ کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے۔
اس مرحلے پر یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں بھی نہیں ہے۔
چونکہ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے تحفظ اور نگرانی میں استصواب رائے ہونا باقی ہے۔
اس لیے مندرجہ بالا سوالات کا فیصلہ پارلیمنٹ اور ایگزیٹو نے کرنا ہے۔
یہ عدالت زیادہ سے زیادہ یہ حکم دے سکتی ہے کہ پراپر ایگزیکٹو اور لیجسیٹو اقدامات کئےجائیں تاکہ شمالی علاقہ جات کے لوگ آیئن کے تحت اپنے مندرجہ بالا حقوق سے لطف اندوز ہوسکے۔
آیک ازاد عدلیہ کے زریعے انصاف تک رسائی کے لیے ناردرن ایریاذ میں چیف کورٹ کو ہائی کورٹ کے برابر لایا جاسکتا ہے جس میں پاکستان کے ہائی کورٹ میں تعینات ہونے لایق افراد کو بھرتی کیا جائے۔
آور چیف کورٹ کے اختیار سماعت کو بڑھا کر ائنیی پٹیشنز کو سننے کو بھی شامل کیا جائے تاکہ وہ بنیادی حقوق جو ائین میں درج ہیں کو لاگو کرسکے۔
اور ایک اعلی عدلیہ ہو جہاں چیف کورٹ کے احکامات اور فیصلوں کو چیلنچ کیا جاسکے۔
اس لئے ہم ان مندرجہ بالا اپیلوں کو قبول کرتے ہوئے فیڈریشن کو حکم دیتے ہیں کہ وہ چھ ماہ کے اندر مناسب انتظامی اور قانون سازی کے اقدامات اٹھائے اور متعلقہ قانون ارڈرز ، رولز ،نوٹیفیکشنز میں ضروری ترامیم کرے اور یقین دہانی کروائے تاکہ شمالی علاقہ جات کے عوام اپنےبنیادی حقوق یعنی اپنے منتخب نمایندوں کے زریعے حکومت کرسکے اور ایک ازاد عدلیہ کے تحت انصاف تک رسائی حاصل کر یں اور آیین کی ضمانت کے تحت ان کے بنیادی حقوق کو نافذ کیا جاسکے”۔
اس فیصلے پر گزستہ بیس سالوں سے عملددامد نہیں ہو سکا ہے البتہ سال ٢٠٠٩ میں گکلگت بلتستان سلف گورنیس
اینڈ امپاورمنٹ ارڑر گلگت بلتستان میں نافذ کیا گیا مگر وقت کے ساتھ علاقے کے عوام میں بڑھتی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے ارڑر 2018 لاگو کیا گیا جس پر سخت عوامی ردعمل آیا تو PTI نے ایک ریفارم ارڈر لایا جسے بھی عوام نے رد کیا اسی اثنا سپریم کورٹ اف پاکستان نے گلگت بلتستان کی آیئنی حثیت پر سترہ جنوری ٢٠١٩ کو ایک اور تاریخی فیصلہ دیکر گلگت بلتستان کو ریاست جموں اینڈ کشمیر کا حصہ اور متنازعہ علاقہ قرار دیا جبکہ دوران سماعت مقدمہ وفاقی حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے لیے ایک اور ارڈر ٢٠١٩ بنا کر سپریم کورٹ میں پیش کیا جس سے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کرتے ہوئے چودہ دنوں کے اندر گلگت بلتستان میں نافذ کرنے کا حکم دیا دریں اثنا وفاقی حکومت پاکستان نے اس ارڈد کو لاگو کرنے سے قبل ہی اس میں ترمیم کرکے لاگو کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک درخواست گزاری ہے اور ان دنوں گلگت بلتستان میں ایک اور ارڈر ٢٠٢٠ نافز کرنے کی خبریں گردش میں ہیں یوں ارڈرز پر آرڈرز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری وساری ہے.