چترال(گل حماد فاروقی) چترال میں کرونا وائریس کا پہلا کیس سامنے آیا۔ ضلعی انتظامیہ نے بھی تصدیق کرلی۔ پبلک ہیلتھ کو آرڈینٹر ڈاکٹر نثار احمد اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شمیم احمد خان کے مطابق چترال ٹاؤن کے اندر چیو ڈوک کے علاقے میں شہاب الدین نامی شحص چند دن پہلے تبلیغ سے واپس آیا تھا وہ سیدھا گھر پہنچ گیا تھا مگر بعد میں انتظامیہ نے اسے قرنطینہ مرکز میں منتقل کیا۔ طبیعت حراب ہونے پر اسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال پہنچا یا گیا جہاں اس کا سیمپل ٹیسٹ کیلئے نیچے بھیجا گیا جہاں سے اس کا ٹیسٹ پازیٹیو یعنی مثبت آیا ہے۔
ڈاکٹر شمیم اور ڈاکٹر نثار احمد کے مطابق مریض کی حالت زیادہ تشویش ناک نہیں ہے اور اس کا کل دوبارہ ٹیسٹ کرایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق شہاب الدین کا عمر 48 سال بتائی جاتی ہے اور وہ پٹھان قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو چیو ڈوک میں رہائش پذیر ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے اس کا ٹیسٹ پازیٹیو آنے کے بعد اس کے پورے گھر کو قرنطینہ قرار دیکر ان کو آیسولیشن میں ڈال دیا ہے۔
دریں اثناء بالائی چترال آحری حصے وادی بروغل سے تعلق رکھنے والے ایک شحص کا بھی آج انتقال ہوا۔ جو گلگت بلتستان سے آیا تھا اور اسے بونی میں قرنطینہ میں رکھا گیا تھا تفصیلات کے مطابق عبدالکریم ولد جان روز خان کا تعلق بروغل کے لشکر گاز سے ہے وہ سخت بخار اور سانس میں تکلیف کی وجہ سے جاں بحق ہوا۔ اور اس کے منہ سے مسلسل خون بھی آنے لگا تھا جو تشویش ناک تھا۔ تاہم وادی بروغل میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اس کا خون بند نہیں ہوا اور اس کا انتقال ہوا۔ وہ گلگت میں چھ ماہ سے مقیم تھا جو ڈرائیونگ سیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے دیگر 24 ساتھیوں سمیت گلگت سے واپس آیا تھا اور بونی قرنطینہ مرکز میں چودہ دن کیلئے رکھا گیا تھا۔ اور چودہ دن گزار نے کے بعد یہ پچیس بندے ایک ہی گاڑی میں بروغل منتقل کئے گئے تھے جہاں ان کا طبعیت حراب ہوا اور آج انتقال کرگیا۔
ہمارے نمائندے نے اس سلسلے میں کمشنر ملاکنڈ ڈویژن ریاض مسعود سے بھی رابطہ کیا جن کے کہنے پر ڈپٹی کمشنر اپر چترال شاہ سعود سے بھی فون پر بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں تحقیقات کریں گے چونکہ لشکر گاز میں موبائل فون یا کسی قسم کا مواصلاتی نظام کام نہیں کرتا تو وہاں پیدل جانا پڑے گا۔
واضح رہے کہ نیچے اضلاع سے چترال آنے والے بعض افراد بغیر قرنطینہ مرکز میں ٹھرائے ہوئے سیدھا اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور گاؤں میں گھومنے پھرنے سے دیگر لوگوں کو بھی حطرہ ہوتا ہے۔
گزشتہ روز بھی عشریت سے ایک سماجی کارکن افتحار حسین نے ہمارے نمائندے کو اطلاع دی کہ لاہور سے دو افراد عشریت آچکے ہیں مگر ان کو قرنطینہ میں نہیں رکھا گیا ہے اور وہ گاؤں میں آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چترال کے ڈپٹی کمشنر سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ فون اٹنڈ نہیں کرتے۔ بعد میں کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سے فون پر بات کی گئی جنہوں نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر لوئیر چترال کو ہدایت جاری کی کہ ان لوگوں کو فوراً قرنطینہ میں منتقل کیا جائے۔ اس کے بعد دو اور افراد بھی نیچے سے آئے ہوئے ہیں جو آحری اطلاعات آنے تک گاؤں میں گھوم پھر رہے ہیں اور ان کو بھی قرنطینہ مرکز میں نہیں ڈالا گیا۔
نیچے اضلاع سے آنے والے افراد کا بغیر قرنطینہ میں رکھنے اور گاؤں میں آزادانہ گھومنے پھرنے سے پورے علاقے کو حطرہ ہے اور اگر ان میں سے خدانحواستہ کوئی کرونا وباء میں مبتلا ہو تو پورے علاقے میں یہ وباء پھیلا سکتا ہے جس کا انتظامیہ کو سخت نوٹس لینا چاہئے۔