کالمز

سماجی دوری، بقا کی جنگ

تحریر:اکرم شاہ
جہاں لوگوں کی زندگی کو  خطرات اس وبا سے لاحق ہیں وہی حفظان صحت کے ماہرین،ڈاکٹر،پولیس ،اور زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ لوگ سماجی فاصلے کا خیال رکھیں۔سماجی فاصلہ  سے مراد میل جول ،ہاتھ ملانے یا بغل گیر ہونے گفتگو اور کام کاج میں ایک دوسروں سے فاصلہ ہجوم سے اجتناب اور ماسک کا استعمال ۔تاکہ اس مہلک اور جان لیوا وبا سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھ سکیں۔ وفاقی کابینہ کی سفارشات کی تناظر میں اور ملکی معاشی بد حالی کے خطرے سے بچاؤ کی خاطر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے۔دوسری جانب لوگوں نے بھی بازاروں کا رخ کرنے کی ٹھانی ہے۔اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل کرنے سے صاف انکار ہیں۔جوں ہی لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی بازاروں میں زندگی کو لاحق خطرات کو بالائے طاق رکھ کر پہلے سے زیادہ رش دیکھی گئی ہے۔جہاں حکومت معاشی بدحالی اور لوگوں کو لاحق مالی مشکلات سے خوف زدہ ہو کر کٹھن فیصلے کر رہی ہے وہی ہماری لاپرواہی ان کے خدشات کو تقویت دے۔رہیں ۔
کل وفاقی اور صوبائی ترجمانوں نے واضح طور پر لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ بے احتیاطی بہت بڑی بحران جنم دے سکتی ہے۔دیکھا جائے تو حکومت نے اپنے کاندھوں سے بوجھ ہلکا کیا کہ لوگ خود احتیاطی تدابیر اختیار کر لے ورنہ وہ خود زمہ دار ہیں اور گھروں میں خود کو قرنطینہ کرنے پر بھی غور ہو رہی ہے۔دنیا میں اس وقت کوئی علاج دریافت نہیں ہوئی ہے ۔جب تک علاج دریافت ہو پتہ نہیں کرنا عرصہ گزر جائے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔لیکن احتیاط اور سماجی فاصلہ اختیار کرکے  زیادہ نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔اور ممکن ہے کہ حکومت زیادہ حالات خراب ہو نے کی صورت میں دوبار لاک ڈاؤن کر سکتی ہے  ۔لوگ سماجی دوری سے انجان نظر آرہے ہیں۔کوئ ان پر عمل درآمد نہیں کر رہا اس میں بہت سے محرکات شامل ہیں ایک یہ کہ عوامی سطح پر آگاہی کا فقدان ،دوسرا مفروضہ یہ کہ گرمیوں میں وائرس کے پھیلاؤ میں کمی۔تیسرا قوت مدافعت چوتھا بہت حد تک لوگ اس بات کو یقینی طور پر ماننے کو تیار نہیں ہے کہ کرونہ Coronaہے یا نہیں  وہ اسکو معمولی زکام سے تشبیہ دے رہے ہیں۔لیکن اسکے نقصانات کا اندازہ ہم امریکہ،سپین اور اٹلی سے ملتا جہاں ہزاروں افراد اس وبا سے لقمہ اجل ہو گئے ہیں ۔لیکن ہم ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ الٹا دوسروں تک اس کےبارے میں غلط معلومات پہنچا رہے ہیں ۔
ابہام میں اضافہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین لڑائی بھی اضافہ کر رہا ہے ان کے درمیاں اختلافات کے نتائج عوام بگت رہے ہیں ۔عوام کس کا اعتبار کرے یہ بات بہت مشکل ہے ایک مقتدر شخصیات نے کیا خوب کہا ہے کہ”حکومت  کرونہ Corona وائرس سے لڑنے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں سے لڑ رہی ہے بات بجا ہے یہ وقت یکجھتی کا ہے،یہ وقت انفرادی مفادات سے بڑھ کر  اجتماعی مفادات یعنی پورے ملک کا ہے نہ کی واحد ایک صوبے کا ۔اس لئے اپنی ذاتی آنا کو بالائے طاق رکھ کر یکسوئی اور یک زباں ہو کر اس وبا کے خطرات سے نمٹنے کا ہے۔جو فیصلے ہوں اجتماعی مفادات کے تناظر میں ہوں۔اس بحران میں بھی بدلے کی آگ بجھانے کی کوشش میں مصروف رہیں گے تو پھر نا تلافی نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ملکی حفظان صحت کے ادارے پہلے سے مالی طور  ہی ناگفتہ بہ حالات سے دو چار ہے مزید بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتا۔خدا را احتیاط کے لیے ہم انفرادی طور پر اپنے اور اپنے خاندان تک کوشش کر سکتے ہیں۔جہالت سے  کچھ حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ ذاتی طور پر عمل پیرا ہو کر زمہ دار پاکستانی ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں ۔جو لوگ ان خطرناک ترین حالات میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں ان کے بارے میں فکرمند ہونا چاہئے۔جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہماری خدمت کر رہے ہیں ۔ان میں میڈیکل سے وابستہ لوگ،پولیس انتظامیہ،رضاکار ،افواج پاکستان شامل ہیں۔ان میں سے کئی نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔ہماری لاپرواہی صرف تباہی کے علاؤہ کچھ نہیں دے سکتا۔اور ہاں کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس وقت لوگوں کو درپیش ہیں وہ یہ کی ماسک کی قیمتوں میں اضافہ مقامی طور پر تیار ماسک کی قیمت میں کمی ہونا چاہیے بلکہ کوئ ماسک پچاس کا اور کچھ دکاندار تیس روپے میں بیج رہے ہیں جو کہ سراسر نا انصافی ہے اور غریب طبقہ کی دسترس سے باہر ہے جس کی وجہ سے اس وبا پھیلنے کا خدشہ ہے۔وزیر اعلیٰ اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مفت ماسک تقسیم ایک احسن قدم ہے جو بڑی حد تک اس کا پھیلاو روکنے میں کارگر ثابت ہو گا۔لیکن تصاویر میں ماسک تقسیم کے دوران سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھنا بہت سے سوالوں کو جنم دے رہے ہیں۔اس وقت عملی طور پر کرکے ہی ممکن ہے کہ بہتر نتائج برآمد ہوں۔ورنہ باتوں اور ہدایات سے ناممکن ہے۔اختتام اس دعا سے کہ اللہ تعالیٰ اس وبا سے تمام اقوام عالم کو بچائے ۔شکریہ۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button