بلاگز
ملاوٹ اور ہماری صحت
تحریر: اکرم شاہ
زندگی کو رواں دواں رکھنے اور تندرست رہنے کے لئے متوازن غذا balance diet کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ ایک قول بھی مشہور ہے کہ تندرست جسم میں ہی تندرست دماغ ہوتا ہے۔جب تک تندرست دماغ نہیں ہوگا انفرادی اور اجتماعی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے، کمی نا ممکن ہے۔ تندرست دماغ ہی تندرست سوچ پیدا کرے گا ۔تندرست سوچ سے وہ معاشرہ ترقی کے منازل برق رفتاری سے طے کرتا ہے وہ اس معاشرے میں رہنے والے انسانون کے لئے ہی مفید نہیں بلکہ قوم اور ملک کے لئے کارگر ثابت ہوتا ہے ۔
آج کل اگر اپنے معاشرے کا اگر بغور مشاہدہ کرے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم خالص اور قدرتی غذائوں کے استعمال سے کس حد تک دوری اختیار کئے ہوئے ہیں ۔بازاروں اور دکانوں میں تمام مصنوعی طریقوں سے تیار شدہ کھا نے اور پینے کے اشیاء وافر مقدار میں دستیاب ہیں ۔ان سے ہمارا واسطہ کسی بھی وقت پڑتاہے ۔شہروں سے دیہاتوں کی طرف ان مضر صحت اشیاء کی ترسیل بہت زیدہ مقدار میں جاری ہے ۔ ان صنعت کاروں کا مفاد یہ ہے کہ ان کی مصنوعات بڑی مقدار میں بکتی رہے۔ اشیائے خوردونوش کا معیار کیا ہے، انسان صحت پر اس کے اثرات کیا ہیں، ان سے صنعتکاروں کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ انہیں صرف منافع سے غرض ہے، پھر چاہے سارا شہر ہی کیوں بیمار نہ ہو!
ان غیر صحت بخش اور مضر صحت اشیا مقامی لوگوں کی صحت پر بے پناہ منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ان اشیاء کے استعمال سے تمام طبقے متاثر ہو رہے ہیں۔ ان میں جو سب سے زیادہ متاثر ہوتے جا رہے ہیں وہ ہیں بچے۔
کم سن بچے جب ان مصنوعی اشیاء جن میں پاپڑ،غیر معیاری بسکٹ،رنگ برنگ کے کلرز والے مشروبات وغیر شامل ہیں۔ اگر انکی فہرست تیار کی جائے تو ہزاروں اشیا مارکیٹ میں موجود ہیں۔
میڈیائی رپورٹس پر نظر ڈالی جائے تو بسہ اوقات ایسی خبریں آتی ہیں کہ ان اشیا کو تیار کرنے کا طریقہ انتہائی مضرصحت ہے، کیونکہ ان میں مختلف کیمیکلز شامل کئے جاتے ہیں ۔ تاہم ان اجناس کی ترسیل مسلسل جاری ہے، اور اس ضمن میں حکومتی اور انتظامی سطح پر کوئی توجہ نہیں دی جاری ہے۔
ان اشیاء میں سے سب سے زیادہ استعمال گھریلو سطح پرہو تی ہے وہ مصنوعی دودھ جس کا آج کل ایک طبقہ دیوانہ ہے جسے خشک صابن ،نمک،یوریا،اور ان کے اثرات معتدل کرنے والے کیمیائی اشاء سے تیار کیا جاتا ہے۔اب جو اشیاء مصنوعی دودھ سے تیار کی جاتی ہے ان میں کیک ، پیسٹری اور بیکری کے سامان سرفہرست ہیں ۔ان میں بیکرز امونیا ڈالا جاتا ہے جو کاربن ڈائی اکسائڈ پیدا کرتا ہےجو بیکری اشیاء کو ہلکا اور پھولا ہوا بناتا ہے۔
اسی طرح ہمارے ہاں بہت سارے فاسٹ فوڈ کھانے کے شوقین ہیں ان فاسٹ فورڈز میں برگر ، تلی ہوِئی شیور مرغی کا گوشت ،چپس،پیزااور سینڈوچ شامل ہیں ۔ماہرین صحت کے مطابق ان سے موٹاپا ،قبض،شوگر،نیند کی جرابی اور دل کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ تمام چیزیں ہماری اور انے والی نسلوں کے صحت اور مستقبل کو تباہ کرنے میں انتہائی خطرناک کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہی اشیا کے استعمال سے آج کر گلیوں میں ایسی بیماریاں ناچ رہی ہیں جن کے نام تک سے ہمارے اجداد ناواقف تھے۔ اگر موجودہ حالات میں ان مضر صحت اور غیر معیاری اشیاء کی ترسیل پر عملی اقدامات نہیں کئیے گئے تو مستقبل کی نسلوں کو بہت قیمت چکانی پڑے گی۔یہ خیالات مختلف طبقات کو ناگوار لگیں گی لیکن اس میں کوئی منافقت نہیں ہے۔
بیماریوں سے جہاں ہر گھرانہ متاثر ہو رہا ہے وہی ملکی حفظان صحت کے اداروں پر بے پناہ بوجھ بڑھ رہا ہے ۔اس بوجھ تلے دب کر ملکی صحت کے ادارے تباہی کے مناظر پیش کر رہہے ہیں وجہ یہ ہے کہ ان پر بے جا مالی بوجھ پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں کی حالت کا اپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ۔لوگ سرکاری ہسپتالوں کے بجائے پرائیوٹ ہسپتالوں پر علاج معالجے کے لئے رخ کرتے ہیں ۔جہاں انہیں بھاری مالی وسائل خرچ کرنی پڑتی ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہمیں ان مضر اور غیر معیاری اشیاء کے استعمال کو بہت حد تک محدود کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک صحت مند معاشرہ قائم اور دائم رہے اور ہماری اور انے والی نسلوں کی صحت محفوظ ہو اور کامیاب معاشرے کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کر کے خود اور دوسروں کے لئے فائدے مند انسان ہونے میں کامیانی نصیب ہو۔