سیاست
وفاقی حکومت نے نگران وزیر اعلی کی تقرری کے لئے کوئی مشاورت نہیںکی ہے، حفیظ الرحمن
گلگت(صفدر علی صفدر سے) وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے اپنی پانچ سالہ حکومتی مدت کے اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں علاقے بے شمار ترقیاتی کام کیے جن میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے علاوہ انفراسٹرکچر کی بحالی اور قانون سازی کے امور پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کیا۔ اتوار کو تین گھنٹے طویل پریس کانفرنس کی ابتدا میں وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے صوبائی حکومت کی کارکردگی رپورٹ کو ایک کتابی شکل میں میڈیا کو دکھایا مگر کسی بھی صحافی یا کالم نگار کو اس رپورٹ کی کاپی نہیں دی گئی جس سے صحافیوں کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ رپورٹ میں آخر کیا کچھ لکھا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنی کارکردگی پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بعد صحافیوں سے کے مختصر سوالات بھی سنے جس میں انہوں نے نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قانونی طور پر نگران حکومت کے قیام کے لئے وزیر اعلیٰ،اپوزیشن لیڈر اور وزیرامور کشمیر کی باہم مشاورت سے نگران وزیر اعلیٰ کا چناؤ عمل میں لانا چاہیے تھا مگر وفاقی حکومت خاص طور وزیر اعظم اور وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اس حوالے سے تاحال کوئی مشاورت نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں دو روز قبل وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر بات کرنے کے لئے وقت مانگا جنہوں نے اس موقع پر تو مشاورت کی حامی بھر لی مگر بعد ازاں ٹیلی فون پر بات کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ جبکہ وزیر امور کشمیر تو کام اور شکل وصورت کے حوالے سے بھی نایاب ہیں جنہیں ڈھونڈ کر لانا ان کے لئے مشکل کام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اور اپوزیشن لیڈر نے نگران کابینہ کے لئے علحیدہ علحیدہ لسٹیں وفاقی حکومت کو ارسال کی ہیں جبکہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان تیسرے اسٹیک ہولڈر ہیں اگر وہ اپنے طور پر کسی کا انٹرویو کرتے ہیں یا کوئی لسٹ بناتے ہیں تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر ان سب ناموں پر حتمی مشاورت کے لئے وزیراعظم کو اجلاس بلانا چاہیے تھا۔ اگر مشاورت کے بغیر نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھ جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی حکومت نے گلگت بلتستان میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لئے بھرپور اقدامات کئے مگر بعض لوگوں سے یہ امن ہضم نہیں ہورہا ہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے اس امن کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ بعض لوگوں کی جانب سے انہیں بھی جان سے مارنے اور قتل کی دھمکیاں بھی ملیں جس پر وہ حکومتی مدت ختم ہونے پر تھانے میں شکایت درج کرائیں گے۔ انہوں نے داریل، تانگیر، گوپس یاسین اور روندو اضلاع پر عملدرآمد سے متعلق پوچھے جانے والے سوال پر کہا کہ انہوں نے لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت نئے اضلاع کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور وہ اپنے نوٹیفکیشن پر آج بھی قائم ہے۔ہم نے ان اضلاع کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی رقم مختص کی ہے۔ مگر وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں آرڈر 2018 میں ترمیم کرنے کی بجائے بے بنیاد اعتراضات لگا کر اسے لٹکائے رکھا۔ اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 24 جون کے اس سے میں قانونی رہنمائی لینے کے لئے سپریم اپیلیٹ کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اقدامات اور اس سے وابستہ مسائل سے متعلق ایک سوال پر وزیر اعلیٰ نے اعتراف کیا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے سلسلے میں کچھ کوتاہیاں ہوگئیں جس میں وینٹی لیٹرز کے لئے آکسیجن کی فراہمی کا مسئلہ صرف ہمارا نہیں پورے ملک کا ایشو ہے۔ ہم نے آکسیجن پلانٹ کی تنصیب کے لئے دو کروڑ روپے بھی مختص کئے تھے مگر سکریٹری ورکس اور سکریٹری صحت نے اس منصوبے پر عملدرآمد کرانے میں تاخیر کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے کورونا ایمرجنسی میں وفاق سے دو ارب روپے مانگے تھے جو مسلسل لڑائی کے بعد اب ایک ارب روپے دئیے گئے جس میں سے پچاس کروڑ روپے ابھی تک کورونا سے متعلق اقدامات کی مد میں خرچ ہوئے ہیں جبکہ باقی ماندہ پچاس کروڑ سیونگ میں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے لاک ڈاؤن میں پرائیویٹ سکولوں کو ریلیف دینے کے حوالے سے کہا کہ اس سلسلے میں ان کی حکومت نے ایجوکیشن اندوومنٹ فنڈ سے پانچ کروڑ روپے مختص کئے ہیں اب محکمہ تعلیم کے حکام پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک کے ساتھ ملکر اس رقم کی تقسیم کا طریقہ کار واضح کریگی۔