وبائی دور اوروالدین کےپاس بچوں کی بہترین تربیت کے مواقع
تحریر: آمینہ نگار
بونی اپر چترال
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بچوں کی عنفوان شباب میں ان کو نہ صرف تعلیمی معلومات کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ عملی مہارتیں سیکھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ جو کہ اُنہیں مستقبل میں آنے والے مشکل حالات و واقعات سے نمٹنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ ان عملی مہار توں کے سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بچے اپنی عادات و اطوار میں وقت اور حالات کی نزاکت کے مطابق مثبت تبدیلی لائیں اور اپنے علم، مہارت اور رویے میں یکسانیت پیدا کریں تاکہ ان کی زندگی میں کوئی بھی ناخوشگوارحالات انہیں مشکلات سے دوچار کر بھی لے تو وہ ہمت و استقلال ، ضبر و تحمل اور فہم و ادراک کے ساتھ اُن حالات کے ساتھ نبرد آزما ہو سکیں ۔ان مہارتوں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک کا تعلق بچےکی خصلت ، عادات و اطوار اور رویے سے ہوتا ہے مثال کے طور پر بچے کے بولنے کا انداز، اٹھنا بیٹھنا اور سوچ وغیرہ جبکہ دوسرے کا تعلق ان کے ہنر سے ہے مثال کے طور پر ان کی تعلیمی کارکردگی، مصوری، کھانا پکانا، گاڑی چلانا، کھیلوں میں ان کی کارکردگی اور دوسری پیشہ ورانہ مہارتیں ہیں جن کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اس تحریر میں ان چند بنیادی مہا رتوں کا ذکر کیا جائے گاجن کا تعلق بچوں کی عادتوں اور رویوں سے ہے ۔اور ان کے فروغ میں والدین کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی اس طرح تربیت نہیں کر پاتے جس طرح کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت کے لئے جذبات اور محبت ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کی نفسیات کو سمجھ کر اس کے مطابق ان کو ایک قابل انسان بنانا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ بچے والدین کے رویوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان کےلیے ماحول کو ہموار رکھنا، زباں کا صحیح استعمال اور الفاظ کا درست چناو بہت معنی رکھتا ہے۔ ان چیزوں کی کمی کی وجہ سے بچے اپنے اپ کو سمجھنے میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ یا وہ اپنے اپ کو بہت کمزور سمجھتے ہیں یا اس کے برعکس اپنے اپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ دونوں میں توازن کے فقدان کی وجہ سے ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ (خود اعتمادی کا مطلب اپنے اپ کو سمجھنا، اپنے اندر مو جود صلاحیتوں کو ڈھونڈ نکالنا اور اپنی قابلیت پر اعتبار کرنا ہے)۔یہ کمی اس وقت دور ہو سکتی ہےجب والدین اور اساتذہ مل کر بچوں کی حو صلہ افزائی کر کے ان میں قوت برداشت، فیصلہ سازی اور مثبت سوچ پیدا کریں۔جس کے بدلے میں ان میں ٹھہراؤ آجائے گا اور وہ کسی بھی مسئلے کا آسانی سے مثبت حل نکال سکیں گے۔
بچیوں کی اخلاقی ، معاشرتی اور ان کی بنیادی مہارتوں کی نشوونما میں گھر، سکول اور سماج کا بڑا اثر ہو تا ہے۔ چونکہ شروعات گھر سے ہوتی ہے لہذا اس حوالے سے چند گزارشات والدین کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔کیونکہ موجو دہ حالات کی وجہ سے والدین اور بچوں کو ساتھ رہنے کا موقع مل چکا ہے جس کا مثبت استعمال بچوں کی تربیت میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
۱۔اولاد کی تربیت کے بارے میں اس کی پیدائش کے بعد نہیں بلکہ اس وقت سوچنا شروع کرنا چاہئے جب ازدواجی زندگی کے بارے میں فیصلہ لینے کا خیال دامن گیر ہو۔ کیونکہ والدین کی آپس میں ہم آہنگی ، اور ان کی عادات و اطوار کا بچے پر قبل از پیدائش اور ما بعد پیدائش گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس لئے ازدواجی زندگی کے فیصلے جذبات یا جلد بازی میں لینے کے بجائے اگر سوچ سمجھ کر کیا جائے اور اس رشتے سے منسلک ہونے کے بعد اس کو بخوبی نبھایا جائے تو یقینا اولاد کی تربیت پر اس کا بہترین اثر ہو گا۔
۲۔ گھر میں اولاد کے بیج انصاف ہو نا بہت ضروری ہے۔ اولا د کی ایک دوسرے پر فو قیت اور بیٹا بیٹی میں امتیاز ان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس لئے گھر کے اندر کسی بھی تفریق کو ترجیح دینا ان کی شخصیت کےاہم پہلو کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔اولاد کو کبھی بھی یہ احساس نہ ہونے دینا کہ والدین کے سامنے ان کے درجات مختلف ہیں کوئی ان کو عزیز ہے اور کوئی حقیر۔ ایسی صورت حال کا وقوع پذیر ہونا نہ صرف والدین کی غلط تر بیت کی آئینہ دار ہوگی بلکہ اولاد کے بیج میں منافرت کا سبب بھی بنے گی ۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کے بیج خلل پیدا نہ کریں۔ کوشش کریں کہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک ہو۔
۳۔ اپنی اولاد کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ وہ اپنے اچھے رویئے اور اپنی اچھی عادات کی وجہ سے لو گوں کا دل جیت سکیں ۔ اور اُن میں اپنی غلطی پر کسی سے معافی مانگنے کا عظیم حوصلہ پیدا ہو ۔ یاد ر کھیں کہ صرف سمجھانا ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ عملی طور پر خود کر کے دیکھانا بھی ضروری ہے۔کیونکہ یہ عام طور پر مشاہدے میں آتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف بتاتے ہیں خو د کر کے نہیں دیکھاتے اور نتیجتا ًبچے ایک کان سے سن کے دوسرے سے نکالتے ہیں۔ اس لئے جو کچھ بچوں کو سیکھانا ہو پہلے خود کر کے دیکھاو بچے خود بخود پیروی کریں گے۔
۴۔وقت کی اہمیت اور اس کے مناسب استعمال کے بارے میں اپنے بچوں کو سمجھانا اور دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ان کو تیار کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے اپنی اولاد کے ساتھ مل کر ان کے معمول کے کاموں کو مختلف اوقات میں تقسیم کرنا اور وقت کے مطابق کاموں کی انجام دہی کو یقینی بنانے کے لئے ان کی نگرانی کرنا نہایت مفید اور کار آمد ہو گا۔ بچوں کو یہ سبق سکھانا لازمی ہے کہ وقت کا صحیح استعمال اُنہیں زندگی کے گرُ سکھانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔ زندگی کا یہ درس ان کے اگے جانے کے فیصلے کو مزید مظبوط کرے گا اور وہ اپنے اپ کو آنے والے دور کے لئے بہتر طور پر تیار کریں گے۔ یہاں اس بات کی بھی اشد ضرورت ہو گی کہ بچے والدین کے وقت کے انتظام کو دیکھیں اور اپنے اپ کو اسی طرح بنانے کی کو شش کریں۔
۵۔ اولا د میں مثبت سوچ پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ اکثر مشاہدے میں ائی ہے کہ ہمارے بچوں میں منفی سوچ کا رجحان زیادہ ہے اور اس میں اولاد سے زیادہ والدین کا قصور ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ والدین کے پیدا کردہ ماحول اور انکے رویَے کا نتیجہ ہے۔ بچوں کے سامنے جس کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو تو یہ خیال زہن میں رہے کہ گفتگو کی ابتدا دعائیہ کلمات اور بہترین منتخب الفاظ سے شروع ہو اور پھر مدعا کی طرف آیا جائے ۔ تاکہ بچوں کو بہتر انداز میں بات چیت کا طریقہ آجائے اور وہ سمجھ سکیں کہ ہر چیز کے بارے میں بتانے سے پہلے اس کے مثبت اور منفی یعنی کہ دونوں پہلووں کےبارے میں مثبت انداز گفتگو اختیار کرنے میں جیت ہے ۔یک طرفہ منفی سوچ ان کے رویے میں منفی تبدیلی لانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اولاد میں یہ عادت ڈالنے کی ا شد ضرورت ہے کہ وہ دیانتداری کو اپنا شیوہ بنائیں ۔ عارضی خوشی یا مطلب کے لیے جھوٹ کا سہارا نہ لیں۔ اپنا موقف بیان کرنے کا حوصلہ رکھیں لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ ان کو یہ سمجھا نا بھی ضروری ہے کہ ہمیشہ ان کا موقف ہی صحیح نہیں ہو گا۔ اس لیے اس بات کی تلقین کرنا کہ وہ دوسروں کی باتوں سے دل بر داشتہ نہ ہو ں بلکہ اپنے اپ کو سمجھنے اور اپنے خیا لات کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر اپنے آپ کو مجبورکریں ۔اور پھر خود ہی کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد فیصلہ کریں۔
اس پوری تحریر کے خلاصے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ مو جودہ حالات کو ایک مو قع سمجھ کر والدین اپنی اولاد کی چند بنیادی مہارتوں کو فروع دے سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے خود ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی اولاد کے لئے مثالی شخصیت بنیں اور بعد میں ان سے توقعا ت وابستہ رکھیں۔ انشا آللہ آپ اپنی کوششوں سے معاشرے کو نیک، صالح، دیانتدار ، باکردار اور مفید شہری عطا کریں گے۔