کالمز

روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا

شاہ عالم علیمی
‘روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا’ اپ نے یہ کہاوت سنی ہے۔ یہ یونانی کہاوت ہے وہاں سے ہومر سقراط بقراط سمیت دوسری زبانوں میں ائی۔ البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ  چھ سو سال پہلے اس کہاوت کا وجود نہیں تھا۔
نیرو سولہ سال کا تھا جب روم کا حکمران بنا۔ روم کی حکمرانی بہت پھیلی ہوئی تھی جس کا اندازہ اپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ نیرو مصر کے فراعین میں شامل ہے۔ اس کے زمانے میں عیسائیت کا ظہور ہوئے ابھی نصف صدی بھی نہیں گزرا تھا۔ شروع شروع میں وہ اپنی والدہ کی سرپرستی میں حکمرانی کرتا رہا پھر مطلق العنان بنا۔ اس کو حکمرانی کے علاوہ بھی بہت سارے مشاغل میں دلچسپی تھی۔ جیسے ارٹس اور موسیقی۔ وہ فائن آرٹس میں دلچسپی رکھتا اور سٹیچ پر پرفارم کرتا تھا۔ یہ چیزیں مروجہ حکمرانوں کی نہیں تھی۔
ایک دن روم کے ایک علاقے (موجودہ اٹلی)  میں اگ بھڑک اٹھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اگ خودکار تھی جیسے مارگلہ کی پہاڑیوں میں بھڑک اٹھتی ہے۔ تاہم کچھ کا خیال ہے کہ یہ اگ خود نیرو نے لگائی تھی جیسے بلدیہ فیکٹری میں بھٹکائی گئی تھی۔
نیرو ابھی تیس سال کا بھی نہیں تھا کہ اسے ایک عالیشان محل بنانے کا خیال ایا۔ مگر اس کے لئے زمین دستیاب نہیں تھی۔ اس نے زمین خالی کرنے کی غرض سے اس علاقے کے جنگل میں اگ لگائی جہاں وہ محل بنانا چاہتا تھا۔ لیکن اگ اس کی توقع سے زیادہ پھیل گئی۔ سات دن سے زیادہ جاری رہی۔ درجنوں اضلاع کو راکھ کرکے رکھ دیا۔ سینکڑوں افراد متاثر ہوئے۔
لیکن جس وقت اگ روم کو نگل رہی تھی اس وقت نیرو بانسری بجانے میں مصروف تھا۔
نیرو صاب ہمیں اس وقت یاد ائے جب ہم نے سنا کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں نو منتخب ممبران اسمبلی نے اپنے پہلے باقاعدہ جلسے میں رویت ہلال اور عید منانے یا کب منانے اور کب نہ منانے کے حوالے سے ایک بِل پیش کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عید (پورے ملک میں)  ایک ساتھ منایا جائے۔
ہمیں شاید نیرو اور اس کی بانسری کے بجائے دری زبان کے گدھے اور کعبے والی مثل بھی یاد اجاتی لیکن چونکہ گدھے کا حکمرانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لہذا ‘گدھا اگر کعبہ بھی جائے تو گدھا ہی رہتا ہے’ اس پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن نیرو بہرحال ایک انسان ہے۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے گدھے سے تھوڑی ہوتی ہے۔ اس نے اگ لگائی اور بانسری بھی بجائی۔ اور جب اگ ٹھنڈی ہوئی تو جاکر متاثرین کی ہر طرح کی مدد بھی کی۔ پیسہ مہیا کیا ٹیکس میں چھوٹ دی۔ ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں پہلے غریبوں کو ڈبویا جاتا ہے پھر ان کی ‘مدد’ کی جاتی ہے۔
اب سوچیے کہ خپلو سے لیکر گاہکوچ تک داریل سے لیکر گوجال تک سکردو سے لیکر استور تک بجلی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور یہ نکلے ہیں رویت ہلال پر بل پیش کرنے!  پورے گلگت بلتستان میں روڑ اور سڑک نام کی کوئی ڈھنگ کی چیز نہیں اور یہ نکلے ہیں عید کی تاریخ فکس کرنے!  ہزاروں نوجوان ماسٹرز ایم فل کرکے مزدوری بھی نہیں پاتے اور یہ نکلے ہیں چاند کو ڈھونڈنے!
ہم ان سے کیا توقع رکھے کہ یہ  کشمیری سیاستدانوں کا مقابلہ کریں گے اور کشمیریوں کی طرح اپنے علاقے اور لوگوں کے حق کے لئے لڑیں گے! یہ پاکستانی ریاست سے اپنے مطالبات منوائیں گے!  یہ جدید چیلنجز کے اس دور میں گلگت بلتستان کے ائینی اور انسانی حقوق حاصل کر پائیں گے!  یہ گلگت بلتستان کے ہمسائے میں موجود دنیا کے تین ایٹمی طاقتوں اور دنیا کی تقریباً نصف ابادی کے بیج گلگت بلتستان کی اہمیت کو جان پائیں گے! اور اس لیول پر جی بی کا کیس تیار کریں گے! گلگت بلتستان کی سرحدوں پر ہمسایہ صوبہ سات سات جگہوں شندور، تھور،  شونجی،  بھاشہ دیامر لالوسر بابو سر اور اب چمرکن میں قبضہ جما چکا ہے اور یہ اس حساس معاملے پر کام کریں گے!
ذہنیت کی پستی کی اس سے بہتر مثال کیا ہوسکتی ہے  کہ جس کام سے ان کا تعلق ہی نہیں یہ اس پر بحث کررہے ہیں اور قوم کا پیسہ اور وقت ضیائع کررہے ہیں۔ وہ گلگت بلتستان سردی سے ٹھٹھر رہا ہے جہاں ایک لاکھ میگا واٹ سے زائد سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ وہ گلگت بلتستان اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق مہیا کرنا پاکستانی ریاست کی اولین زمہ داری ہے۔ اس گلگت بلتستان میں ایک ادھ کلومیٹر ڈھنگ کی سڑک نہیں جس کی وجہ سے پاکستان ہزاروں ارب روپے سی پیک نامی پروجیکٹ کے تحت پورے ملک میں منصوبے لگوارہا ہے۔ اس گلگت بلتستان کے ننانوے فیصد نوجوان بے روزگاری کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں شرح خواندگی ملک کے کسی بھی حصے سے زیادہ ہے۔ مگر ان حقائق کا ادراک کون کریگا جب وہ لوگ جنھیں ہم نے امیدوں کے ساتھ اسمبلی بھیجا خود بچگانہ سوچ رکھتے ہوں۔
ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ‘این راہ کہ تُو می راوی راہ ترکستان نیست’ جس راستے سے تم ترکستان جارہے ہو یہ راستہ ترکستان کی طرف نہیں جاتا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button