سیاسی ضابطہ اخلاق
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
سیاست میں روایات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اچھی روایات فروغ پائینگی تو تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا پھل ملے گا ، بری روایات فروغ پائینگی تو ایک کے بعد دوسری جماعت ان غلط روایات کی بھینٹ چڑھتی جائےگی۔ آج کی برسر اقتدار سیاسی جماعت جس غلط روایت کو فروغ دے گی کل وہ خود اس کا شکار ہوجائے گی۔ جیسے گذشتہ برسر اقتدار جماعت کی قائم کردہ غلط روایات اس کے اپنے گلے پڑ رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر نئ آنے والی حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ بھول جاتی ہے کہ کل ان کی باری آسکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کئ دفعہ ان تجربات سے گزرنے کے باوجود آج بھی یہی عمل اسی طرح ہی جاری و ساری ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ انتقامی کارروائیوں، بہتان تراشیوں ، جعلی مقدمات ، مذہبی جذبات کو ابھرانا، گالم گلوچ اور ہلڑ بازی وغیرہ جیسی غلط رواہات کی حوصلہ شکنی کریں ورنہ یہ کل کو آپ کے اپنے گلے پڑ سکتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے سیاسی جماعتیں بلوغلت اور عقلمندی کا مظاہرہ کریں۔ ورنہ سب کی یوں ہی تذلیل ہوتی رہے گی۔ گالیاں دوگے ، گالیاں کھاو گے، جعلی مقدمات بناو گے جعلی مقدمات بھگتو گے، دوسروں پر تشدد کرو گے تو خود بھی تشدد کا سامنا کرو گے، بہتان لگاو گے تو بہتان پاو گے۔
یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے یہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ اس طرح نہ تو معاشرے ترقی کرتے، ہیں، نہ معاشرے مہذب کہلاتے ہیں اور نہ ہی اس سے معاشروں میں کوئی مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ مل کر سیاسی ضابطہ اخلاق بنائیں اور مذکورہ غلط روایات کا خاتمہ کریں ۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو ہم خیال جماعتیں بھی آپس میں ایسا سیاسی ضابطہ اخلاق بناسکتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے پانی سر کے اوپر سے نہیں گزرا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قائم کردہ غلط روایات نے ان جماعتوں کے کارکنوں کے ذہنوں کو بھی زہر آلود کر دیا ہے ۔ یہ عمل نہیں رکا تو ہر سیاسی جماعت کا کارکن بد مزاج، بد اخلاق، بد تہذیب ، انتہاء پسند اور تشدد پسند بن جائے گا جس کا انجام خانہ جنگی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ سیاسی جماعتوں کو اس امر کا ادارک ہونا چاہئے کہ وہ غلط رواہات کو فروغ دے رہی ہیں جس کا انجام تباہی ہی تباہی ہے۔ اس وقت وہ جماعتیں برسر اقتدار ہیں جو ان تمام تجربات سے گزر چکی ہیں ۔ آج بھی اگر نوے کی دہائی کی طرز سیاست کو اگر فروغ دینا ہے تو پھر ان سارے تجربات اور سیاسی جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی قدرے بہتر روایات کی حامی رہی وہ بھی اس اتحاد کا حصہ جو ان دنوں برسر قتدار ہے۔ اس لئے آج اس بات کی اہمیت بڑھ گئ ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں کم از کم چند ایک چیدہ چیدہ نقاط پر مبنی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کر لیں۔ جن میں یہ باتیں شامل ہوسکتی ہیں کہ وہ آئندہ پبلک مقامات پر ہلڑ بازی، گالم گلوچ، تشدد، سیاسی انتہاء پسندی، بہتان ترازی اور پارلیمان کے اندر اور باہر غیر پارلیمانی زبان کے استعمال سے اجتناب کریں گی۔ اسں کے علاوہ ایسے نقاط بھی شامل کئے جاسکتے ہیں جو تمام سیاسی جماعتوں کے عزت و احترام میں اضافے کے علاوہ جمہوری اقدار کے فروغ اور جمہوری اداروں کی مضبوطی میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ جس دن ایسا کوئی سیاسی ضابطہ اخلاق بنانے میں یہ جماعتیں کامیاب ہوجائینگی وہ دن پاکستان میں جمہوریت کی فتح کا دن ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں میں ایسے انتہائی زیرک ، سنجیدہ ، سلجھے اور ،منجھے ہوئے سیاست دان موجود ہیں جو موجودہ صوتحال سے نالاں ہیں وہ سر جوڑ کر جب بیٹھ جائینگے تو اس مہم کو کامیاب بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے #