یہ فیری میڈوز اور نانگاپربت کا پہلا سفر تھا۔ اس سفر کے متعلق اپنے کچھ تجربات ماقبل کے صفحات میں آپ سے شیئر بھی کیے۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے عکسی مناظر سے بھی تمہیں بہرہ ور کیا۔اب کچھ فیری میڈوزہوٹل اور نانگاپربت اور رائیکوٹ میں سیاحتی معلومات اور چند تجاویز آپ سے شیئر کریں گے۔
رائے کوٹ سرائے ہوٹل اور نیپال ماڈل ٹورزم
رائیکوٹ سرائے ہوٹل فیری میڈو 1992 میں غلام نبی رائیکوٹی نے شروع کررکھا تھا۔غلام نبی صاحب اور ان کے بھائی رحمت نبی دونوں بڑے دلچسپ لوگ ہیں۔غلام نبی صاحب نے جوکچھ کہا ان کے خیالات کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا کرپیش کررہا ہوں۔ غلام نبی بنیادی طور پر ٹورسٹ گائیڈ تھے۔ انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کریہ کام شروع کیا تھا۔ جب رائیکوٹ جنگل لیز پر دیا گیا ، جنگل کی کٹائی ہونے لگی اور لاکھوں درخت رائے کوٹ سے کاٹ کرلے جایا گیا تو انہوں نے اس فطری حسن کو برباد کرنے کے خلا ف آواز بلند کردی۔لوکل، نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے کچھ دوستوں نے ان کی آواز مقتدر ایوانوں تک پہنچایا ۔وہ سمجھتے تھے کہ فیوچر میں یہ جگہ ایک عالمی سیاحتی پوائنٹ بنے گا۔اور ماحولیاتی تباہی سے بھی علاقہ بچے۔
جب جنگلات کا صفایا ہونے سے بچ گئے تو لوگوں کی انکم میں ڈسٹربینس ہونے لگی۔غلام نبی اور رحمت نبی نے ہوٹل شکل ٹینٹ ولیج کا اسٹارٹ لیا تاکہ متبادل ذریعہ معاش کی ترتیب بن سکے اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔بنیادی طور پر یہ نیپال طرز کا ماڈل ہے۔ان دونوں بھائیوں نے اس ماڈل کو متعارف کروانی کی کوشش کی ہے۔اب اس ماڈل سے رائیکوٹ کا ہر فرد مستفید ہورہا ہے۔ سوفیصد انٹرپرینیور شپ مقامی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کمیونٹی بیسڈ ٹورزم ہے۔ سب کچھ مقامی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ معاشی حوالے سے یہ ماڈل بڑا کامیاب گیا ہے ،مزید بہتری کی امید ہے۔یہ بڑی تبدیلی ہے۔ یہ پیراڈائم شفٹ ہے۔ غلام نبی شاکی ہے کہ ریاستی اداروں کی نااہلی اور مقامی لوگوں کی بے بضاعتی کی وجہ سے جنگلات اور قدرتی حسن کا ستیاناس ہورہا ہے۔بہرحال جنگلات کی کٹائی اور بے ہنگھم ہوٹلوں کی وجہ سے انوارمینٹل زونگ اور منیجمنٹ ڈسٹرب ہے۔چیک اینڈ بیلنس کا کوئی انتظام نہیں۔ انتظامیہ بے حس ہے اور علاقائی نمبرداران اور معتبرین بے اختیار۔اب ان کے پاس سزا و جزا کا اختیار نہیں رہا اس لیے وہ کوئی بڑا اینیشیٹو نہیں لے سکتے۔
رحمت نبی کے کمنٹس
فیری میڈو کا دوسرا نام رحمت نبی ہے۔فیری میڈو اور رحمت نبی لازم و ملزوم ہیں۔ مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیں۔ رحمت نبی فیری میڈو میں تشریف لانے والے سیاحوں کو لطف اندوز نہیں کرپارہے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے بیمار ہیں اللہ ان کو شفائے کلی دے۔گلگت سے جاتے ہوئے رحمت نبی صاحب کے علم میں لایا تھا کہ ہم فیری میڈو جائیں گے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم ایک دن رائیکوٹ سرائے میں گزارے ہیں۔ ہم اپنے طے شدہ معمولات کی وجہ سے وہاں رات تو نہیں گزار سکیں البتہ رائیکوٹ سرائے کا وزٹ ضرور کیا۔ سرائے کے منیجر طفیل سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت مصروف تھے اس لیے ان سے گفتگو نہ ہوسکی۔ارادہ یہی تھا کہ طفیل کے توسط سے کچھ نیشنل اور کچھ انٹرنیشنل سیاحوں سے بات چیت کروں ، ان کے خیالات جانوں مگر ایسا نہ ہوسکا۔ رحمت نبی صاحب نے میرے استفسار پر ایک تحریری کمنٹس لکھ دیے۔ملاحظہ کیجیے:
‘1992 raikot Sarai was started by Ghulam Nabi
As both of us were in the field of tourism so we had relations with travel agencies all over Pakistan we offered them this tenting campsite it was easy for us to develop business being in the field already.
The basic idea was to keep tent village but with the span of time huts were built due to heavy demand of domestic tourists as our domestic families are not used to sleeping in tents۔this slowly tents demolished and cottages took over.
Fairy meadows was well known to Europeans over centuries long 1892 onwards explorers and climbers came to climb this mountain.
Travel agencies use to sell trips to fairy meadows with their own camping equipment and kitchen gear we offered them tent and food and developed business ties with tour operators
Domestic tourists start coming in 1997 onward mainly because the famous writer and morning show host sir mustansar Hussain tarar،s travel novel nanga parbat and talked about fairy meadows on the morning show a lot not only fairy meadows but all Gilgit baltistan ha had first visited in 1987 and second visit was 1991 this helped us to introduce fairy meadows among domestic tourist۔ Now as you saw the community is involved and the destination is famous among domestic and international market.’’
ترجمہ
1992 میں رائی کوٹ سرائے کا آغاز غلام نبی نے کیا۔چونکہ ہم دونوں سیاحت کے شعبے سے وابستہ تھے اس لیے ہمارے پورے پاکستان میں ٹریول ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات تھے ہم نے انہیں خیمہ گاہ کی یہ پیشکش کی ۔ ہمارے لیے پہلے سے ہی اس شعبے میں کاروبار کو فروغ دینا آسان تھا۔بنیادی خیال ٹینٹ ویلج رکھنے کا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھریلو سیاحوں کی بہت زیادہ مانگ کی وجہ سے لکڑی کے ہٹس بنائے گئے، کیونکہ ہمارے گھریلو خاندان خیموں اور ٹنٹوں میں سونے کے عادی نہیں ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ خیمے ختم کرکے لکڑی کے کمرے جن کو کاریج بھی کہا جاتا ہے بنائے گے۔
فیری میڈو کا میدان یورپیوں کے لیے صدیوں سے مشہور تھا۔ 1892 کے بعد سے اس پہاڑ پر چڑھنے کے لیے متلاشی اور کوہ پیما آئے۔ٹریول ایجنسیاں اپنے کیمپنگ کے سامان اور کچن کے سامان کے ساتھ فیری میڈوز کے تشریف لاتے اور اپنے گاہکوں کو سروسز مہیا کرتی، ہم نے انہیں خیمہ اور کھانا پیش کیا اور ٹور آپریٹرز کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار کیے۔
1997 کے بعد سے ملکی سیاح آنا شروع ہوئے۔ جس کی بنیادی وجہ مشہور مصنف اور مارننگ شو کے میزبان جناب مستنصر حسین تارڑ کے سفری ناول نانگا پربت اور مارننگ شو میں پریوں کے مرغزاروں کے بارے میں بات کی گئی تھی جس میں نہ صرف فیری میڈوز بلکہ پورے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تھا۔ 1987 میں انہوں نے پہلا جبکہ دوسرا دورہ 1991 میں کیا تھا۔ان کے پروگرامز اور ناول نے فیری میڈوز کو ڈومیسٹک سیاحوں کے لیے تعارف کا کام کیا۔ اس نے ہمیں گھریلو سیاحوں کے درمیان فیری میڈوز متعارف کرانے میں مدد کی۔ اب جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ اب اس بزنس میں رائیکوٹ کی پوری کمیونٹی شامل ہے اور یہ علاقہ مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں مشہور ہے۔”۔
فیری میڈو کاٹیج اور قاری رحمت اللہ کی کہانی
فیری میڈو کاٹیج ہوٹل 1994 میں قاری رحمت اللہ نے گھنے جنگلات کے درمیان آٹھ سو روپیہ سے شروع کیا تھا۔قاری رحمت اللہ کے نام سے شناسائی بچپن سے تھی۔ انہوں نے قاری اشرف سے حفظ قرآن کیا ہے اور ہم نے بھی قاری اشرف صاحب سے دو پارے حفظ کیے ہیں۔ اسی احترام میں ہم انہیں، رحمت اللہ کاکو یعنی بڑے بھائی کہتے ہیں۔انہوں نے 1991 میں حفظ قرآن مکمل کرنے کے بعد تین سال حفظ کی کلاس چلائی، موسم گرما میں گونرفارم سے حفظ کی کلاس فیری میڈو بھی منتقل کیا۔ بہر حال کسب معاش کی ناہمواریوں اور مدرسہ گونرفارم میں نظم و نسق کی کمزوریوں کی وجہ سے وہ حفظ کی کلاس چلانے سے قاصر رہے مگر اب تک تجارت کیسا تھ دینی کاموں سے جڑے ہوئے ہیں۔قاری رحمت اللہ کی کچھ پرانی یادیں اور دل پھینک کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں۔کسی تفصیلی ملاقات پر ان سے ان کی باتیں سنیں گے اور یاد ماضی کے ذریعے ان کو ، انہیں کے لیے محظوظ کریں گے۔یاد ماضی واقعی عذاب ہے ۔اور کبھی کبھی ہر ایک کو اس عذاب سے گزرنا چاہیے۔
اب کی بارہم ان کے بھی مہمان تھے۔آج رائیکوٹ میں فیری میڈو کاٹیج بہت معیار ی سروسز مہیا کررہا ہے۔ قاری رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ اب وہ تقریبا ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ ان کے بچے معاملات دیکھتے ہیں۔لکڑی کے ایک ہٹ سے شروع ہونا والا یہ کاٹیج اب بہت بڑا ہوٹل بن چکا ہے۔ ملکی اور بیرونی ہزاروں سیاح سالانہ آتے ہیں۔ 2011 سے لوکل ٹورزم بھی شروع ہوچکا ہے۔ اورسیز ٹورسٹ اکثر ٹور اپریٹر کمپنیوں کے ذریعے آتے ہیں۔ غیر ملکی لوگ زیادہ آتے ہیں۔ نومبر تک آتے ہیں۔ڈائریکٹ بکنگ بھی کرواتے ہیں۔ فیری میڈو کاٹیج میں کیمپنگ کی بھی بہترین سہولت موجود ہے۔ ہم نے یہی سے نانگا پربت کی چوٹیوں پر غروب افتاب کا نظارہ کیا۔اور درجنوں تصاویر لیں۔یہ ایک ایسا نظارہ ہے جو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے بیان کرنا انسانی بس کی بات نہیں۔ فیری میڈو سے نانگا پربت کا طلوع آفتاب اور غروب افتاب کا نظارہ یقینا سب سے اہم اور سب سے دلکش اور سب سے یونیک چیز ہے۔انگریز اس نظارہ کے لیے فنا ہیں۔ہم نے فیری میڈو کاٹیج سے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب ہوتے دیکھا۔ اگر یہ منظر نہ دیکھتے تو شاید رائیکوٹ کا سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔قاری رحمت اللہ اب بہت بڑا بزنس مین ہے۔ اپنے بزنس میں پوری فیملی کو انوال کررکھا ہے۔ہر کوئی اپنے اعتبار سے کمارہا ہے۔کمال بات یہ ہے کہ یہ جی بی کے سیاحوں کو بالعموم اور گوہرآباد کے سیاحوں کے لیے بالخصوص سروسز فری یا بہت سستی دے رہے ہیں۔ ہماری بہت مہمان نوازی کی۔ فیری میڈو کاٹیج میں 23 کمرے ہیں۔فن تعمیر کے شاہکار۔ ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہےجہاں نماز مغرب کی ادائیگی کا مومع ملا۔کاٹیج کی انتظامیہ نے قاری رحمت اللہ کے حکم پر ہماری شاندار خدمت کی۔ اللہ انہیں اجر عظیم دے۔
دینی پس منظر اشخاص کے لیے قاری رحمت اللہ ایک مثال ہیں۔
اگر آپ کا پس منظر دینی ہے۔ مدرسہ سے تعلیم یافتہ ہیں۔ دینی کام کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن حالات کی ستم گریاں آپ کا ہاتھ روک لیتی ہیں۔ کار حیات چلنا مشکل ہے۔غربت اور بے روزگاری نے ڈھیرے ڈال رکھا ہے تو آپ قاری رحمت اللہ سے ایک ملاقات طے کریں۔ ان کا دیہاتی پس منظر جانیں۔آج سے تیس سال پہلے کے جملہ حالات اور ان کی تعلیم کا جائزہ لیں۔ پھر ان کی تگ و دو کا ایک ایک پوائنٹ اپنی ڈائری میں نوٹ کیجیے۔ صرف تیس سال بعد وہ کہاں سے کہاں پہنچے ہیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا۔اب وہ بلاشبہ کروڈ پتی ہے۔ دونوں ہوٹلوں میں مسجد بنوائی ہے۔ گونرفارم میں ایک بہترین مسجد کا تعمیراتی کام مکمل کرواچکے ہیں اور ناظرہ قرآن کی ایک کلاس کا باقاعدہ انتظام کررکھا ہے اورسالانہ کروڈوں کماتے ہیں اور اتنا ہی خرچ بھی کرجاتے ہیں۔آپ ان سے ضرور رہنمائی پالیں گے۔ قاری رحمت اللہ پر مکمل کیس اسٹڈ ی ہوسکتی ہے ایسے لوگوں کے لیے کیس اسٹڈی جو دینی پس منظر رکھتے ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
جرگہ دار برکت اللہ کی سخاوت اور خاندانی افتخار
جرگہ دار برکت اللہ بڑے سخی انسان ہیں۔ اور فیری میڈو میں میرے میزبان بھی۔ ہم کلاس فیلوز ہیں اور ہمارا ایک گھریلوے رشتہ بھی ہے۔فیری میڈو کا ہر شخص یہ گواہی دیتا ہے کہ برکت اللہ بڑے سخی ہیں۔ یہ گواہی بھی دی جاتی ہے کہ ان کے والد حوالدار بکدور خان مرحوم ان سے بڑے سخی تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان کے دادا ولی جرگہ دار ان سے بھی سخی تھے۔ جنگ آزادی گلگت بلتستان و کشمیر کے ہیرو اور مجاہد تھے۔ سرکار نے انہیں جرگہ دار کا ٹائٹل دیا ہے۔آزادی کے لیے ان کی کاوشوں کے عوض دو ہتھیار (ایک تھری نٹ تھری(گورا)اور ایک تیس بور پسٹل) اعزازی عطا کیا ہے۔یہ ٹائٹل ان کے لیے خاندانی افتخار ہے۔اوریہ ہتھیار آج تک برکت اللہ کے پاس موجود ہیں۔1953 میں ان کے دادا کو مول لاٹ،کیڈٹ کالج ڈرن، کے ساتھ اوپری حصے میں 32 سو کنال الاٹ کیا گیا ہے۔فیری میڈو میں بھی انہیں 25 کنال سرکار نے الاٹ کیا تھا لیکن ولی جرگہ دار نےوہ حصہ عوام کو گفٹ کیا تاہم عوام نے برکت اللہ کو ہوٹل بنانے کی جگہ عنایت کی اور یوں انہوں نے آئی بیکس لاج کی شکل میں ایک بہترین ہوٹل قائم کیا جس کا افتتاح اکتوبر 2022 جی بی اسکاوٹ کے ڈائریکٹر جنرل برگیڈر ضیاء الرحمان نے کیا۔اب برکت اللہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر خوب کما بھی رہے ہیں اور اپنے مہمانوں کی ضیافت بھی فرمارہے ہیں۔جن دنوں میں وہاں تھا، ان تین چار دنوں میں ہی ان کے پاس گلگت بلتستان کے کئی امیر لوگ مفت میں ٹھہرے ہوئے تھے۔گلگت کے مشہور ڈاکٹر کلیم اللہ اور اس کی ٹیم، سابق ڈائریکٹر جنرل ایجوکیشن مجید صاحب ہنزائی اور گلگت کے میرے شاگردں کا ایک گروپ یاسین اعظم کی سربراہی میں کئی دن مفت میں قیام و طعام کرکےرخصت ہوچکے تھے۔ان تین گروپوں میں ایک کا تعلق اہلسنت، ایک کا اسماعیلی اور ایک کا اہل تشیع سے تھا۔میں شکریہ جیسے الفاظ سے برکت اللہ کی محبتوں کو پھیکا نہیں کرنا چاہتا۔
مقامی سیاحوں کے لیے راز کی بات
ایک راز کی بات بتاتاہوں، رائیکوٹ کے باسیوں کا ماننا ہے کہ مقامی لوگوں کو تمام سروسز مفت میں دی جائے، یا انتہائی سستے داموں۔کسی بھی ہوٹل میں چارج نہیں کیا جاتا ہے۔یہ وہ صفت ہے جو شاید دنیا میں کہیں موجود ہے۔آپ اگر مقامی سیاح ہیں تو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کی بجائے رائیکوٹ کے لوگوں سے شینا زبان میں بات چیت کیجیے۔ انہیں اپنا مقصد سفر بھی بتائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کی بے حد مہمان نوازی کریں گے۔یہ بڑے سخی لوگ ہیں۔کمرشل ایریاز میں ایسی سخاوت ناممکن ہی ہے۔
سخاوت اور اللہ کی مہربانی
اس سخاوت کی وجہ سے اللہ تعالی فیری میڈو اور اس کے مضافات پر روپیہ پیسہ کی بارش فرمارہے ہیں۔ ایک ایک گدھا اور گھوڑا بھی سیزن میں لاکھوں کماتا ہے۔ جیپ اسٹاپ سے فیری میڈو تک ایک گھوڑا ایک ادمی کو بٹھانے کے لیے پانچ ہزار ایک سو پر بک ہوتا ہے۔ رائیکوٹ پل سے جیپ اسٹاپ تک چودہ کلومیٹر کے فاصلے کے لیے ایک جیپ آنے جانے کے لیے چودہ ہزار ایک سو پر بک ہوتی ہے۔ جیپ اسٹاپ سے فیری میڈو تک ایک کلو وزن سوروپیہ پر پہنچایا جاتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا ہر وقت بالخصوص اپریل سے ستمبر تک تانتا بندھا رہتا ہے۔گاڑیاں، گھوڑے، گدھے اور مزدور کی قلت ہوجاتی ہے۔کمانے کے اعتبار سے یہ علاقہ دبئی اور امارات سے زیادہ بہتر ہے۔اگر لوگ سخاوت کرنا چھوڑ دیں، بزنس میں حسدو بغض کرنے لگے تو یقینا یہ سب برکتیں ختم ہوجائیں گی۔بہتر یہی ہے کہ کاروباری معاملات میں ایک دوسروں کے معاون بنیں، جیلسی سے گریز کریں۔ سخاوت کا سلسلہ مزید بہتر کریں۔ دلنوازی کا خوگر بنیں۔اگر ہر چیز کمرشل بنیادوں پر دیکھا گیا تو یہ بات یقینی ہے کہ یہ برکتیں، یہ کاروبار، یہ سیاح، یہ ٹورزم سب کچھ بند ہوجائے گا۔
فیری میڈوز میں سیاحت اور سرکار کی بے توجہی
سیاحت کے فروغ کے حوالے سے پاکستان اور گلگت بلتستان میں بڑا شورو غل ہے۔ مجھے رائیکوٹ فیری میڈو ، بیال کیمپ،گلیشئر ویو پوائنٹ، بیس کیمپ، تاتو روڈ، جیپ اسٹاپ تا فیری میڈو ٹریک، فیری میڈو تا گلشیئر ویوپوائنٹ ٹریک، جرمن ٹریک، بیس کیمپ ٹریک پر، محکمہ سیاحت گلگت بلتستان و پاکستان کہیں پر بھی نظر نہیں آیا۔کم از کم ان ٹریکس اور فیری میڈوز میں صفائی کا کوئی سرکاری انتظام ہوتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔ اکیسیوی صدے کے تیسرے عشرے میں بھی ایک بین الاقوامی سطح پر مشہور و معروف اور لاکھوں سیاحوں کا مرکز فیری میڈو اور اس کے مضافات میں بجلی نہیں۔ ہوٹل والوں نے اپنے اپنے ذاتی ٹربائن لگا رکھے ہیں اور مقامی آبادی کے بھی ٹربائن ہیں۔ یہ سب سن کر مجھے شدید حیرت ہوئی۔
صفائی پسند لوگ
لوگ صفائی پسند ہیں۔ سیاحوں کا کچرا اٹھا اٹھا کرٹھکانے لگاتے ہیں۔ بیرونی سیاح بھی اپنا کچرا اور ہمارے پاکستانی سیاحوں کا کچرا ان راستوں سے چن چن کر ، ہوٹل والوں کے حوالے کرتے ہیں۔ جس حساب سے کچرا پھیلا جاتا ہے اگر وہ رہنے دیا جائے تو جیپ اسٹاپ سے رائیکوٹ گلیشئرویو پوائنٹ تک یہ سارے ٹریکس اور فیری میڈو ز کچرا منڈی بن جاتا مگر مقامی لوگ اور بوجھ اٹھانے والے لوکل مزدور جگہ جگہ سے کچرا اٹھاتے ہیں۔ ان کی یہ صفت بڑی شاندار لگی۔ ان کو کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی ہے مگر انہوں نے یہ خُو خود اپنائی ہے۔ٹریکس پر گدھوں اور گھوڑوں کی لید تعفن پیدا کررہا ہے۔ اس کا کوئی حل ڈھونڈنا ہوگا۔
محکمہ تعلیم کی توجہ کی ضرورت
پورے رائیکوٹ میں ایک نیم سرکاری پرائمری اسکول ہے۔ وہ بھی اس سال سیلاب کی نذر ہوا۔ سابق ڈائریکٹر جنرل ایجوکیشن مجید صاحب بھی میرے جماعتی برکت اللہ کے فیری میڈو لاج میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب ان سے یہ ساری تفصیلات شیئر کی تو یقین جانیں ، انتہائی خفت میں وہ بات کرنےسے کترارہے تھے۔ اب دیامراستور ریجن کے ڈائریکٹر ،میرٹ کی پامالی میں ون ون ٹوٹو کے ٹائٹل پانے والے ڈائریکٹرز، ڈائریکٹر جنرل سکولز اور سیکریٹری ایجوکیشن سکولز اور تعلیم کے نام پر کچھ مخصوص شہروں میں میلے ٹھیلے لگانے والے چیف سیکریٹری محی الدین وانی صاحب، اگر یہ الفاظ پڑھ رہے ہیں تو وہ رائیکوٹ پرائمری اسکول پر رحم کریں۔ آپ مختلف شکلوں میں رائیکوٹیوں کی دلنوازی سے محظوظ ہورہے ہیں اور آپ کے مختلف مہمان بھی ، تو یقینا پرائمری سکول تاتو پر بھی رحم کرسکتے ہیں۔لیکن یہ الفاظ ان لوگوں پر اثر کرتے ہیں جن میں علم دوستی کی تھوڑی سی رمق ہو۔جنہیں اپنے بڑے بڑے عہدوں اور کمنٹمنٹس کی لاج ہو۔صرف عہدے اور عیاشیاں انجوائی نہیں کرتے ہوں۔اور نہ ہی صرف تعلیم کے نام پر کھلواڑ کرتے ہوں۔رائیکوٹ میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کی بھی اشد ضرورت ہے۔کیا ریاستی ادارے جو دیامر میں تعلیم پر گرینڈ جرگے کرتے ہیں، اس ضرورت کو محسوس کریں گے؟
فیری میڈوز میں سیاحت کے لیے کچھ تجاویز
فیری میڈوز میں سیاحت کے لیے کچھ تجاویز ذہن میں آرہی ہیں۔بے ربط چند تجاویز ملاحظہ کیجیے۔
پورے رائیکوٹ میں بجلی نہیں۔ پہلی فرصت میں بجلی کا ایک میگاپروجیکٹ شروع کیا جائے۔یہ کام ہنگامی سطح پر ہونا چاہیے۔وزیر اعلی حاجی گلبرخان اگر یہ کارنامہ انجام دیں تو بڑی بات ہوگی۔
رائے کوٹ پل سے جیپ اسٹاپ تک روڈ کی حالت بہتر بنانا،اور جو روڈ کے قلی پہلے سے سرکاری ملازمت میں ہیں انہیں ڈیوٹی پر حاضر کرکے کام لینا۔یہ روڈ موت کا کنواں ہے یا پل صراط۔اوپر سے بارشوں کی کثرت اور روڈ قلیوں کی غیبوبت سے مزید حالت خراب ہوجاتی ہے۔
جیب اسٹاپ سے گلیشئر ویو پوائنٹ تک صفائی ستھرائی کا بہترین نظام وضع کرنا۔
فیری میدوز کے جملہ پیدل ٹریکس کو ہر سال مرمت کرکے درست حالت میں رکھنا
ان ٹریکس اور اکثر گاؤں میں آبشاریں گرتی ہیں اور برف کا پانی چھوٹے سے دریا کا شکل اختیار کرلیتا ہے وہاں پگڈنڈی پلوں کی تعمیر کرنا۔
جہاں جہاں پیدل ٹریکس کے پاس ندی نالوں سے پانی آتا ہے اس کوبہتر طریقے سے منیج کرکے سیاحوں کی سہولت اور بینائیوں کے لیے کارآمد بنانا
بہترین کارکردگی دکھانے والے ٹور آپریٹرز، ہوٹل مالکان، ٹورگائیڈز اور دیگر متعلق اشخاص کو انعامات دینا اور حوصلہ افزائی کرنا
فیری میڈوز ہوٹل مالکان اور کام کرنے ، بوجھ اٹھانے والے مزدوں اور سیاحت سے منسلک دیگر لوگوں کو باقاعدہ ٹریننگ دینا۔ یہ کام سیزن میں فیری میڈوز میں ہی کیا جاسکتا ہے اور سردیوں میں باقاعدہ گلگت چلاس میں بھی تربیتی ورکشاپس اور ٹریننگ کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔
ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی آگاہی اور ٹریننگ کی ضرورت ہے۔
فیری میڈو میں صرف ایک معمولی ڈسپنسری ہے۔ اس کو باقاعدہ ہسپتال کا درجہ دے کر سیزن کے لیے ڈاکٹرز کو متعین کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
ریسکیو کی ٹیموں کو مقرر کرکے تربیت دینے کی ضرورت ہے جو ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کی ریسکیو کرسکیں۔
اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کو چاہیے کہ اپناسسٹم فعال کریں تاکہ انٹرنیٹ اور فون کی سہولت ہر وقت موجود ہو۔
جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔
بڑی یونیورسٹیوں کو یہاں ونٹرکیمپس بناکر تجرباتی و سائنسی لیبارٹریاں قائم کرنی چاہیے۔
دینی اداروں کو بھی ونٹرکیمپس بناکر دینی تعلیمات کا فروغ کرنا چاہیے۔
ایسا انتظام بھی ضروری ہے کہ ملکی اور بیرونی سیاح بذریعہ ہیلی فیری میڈو آسکیں۔
سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر نیشنل اور انٹرنیشنل سیمینارز اور ایونٹس میں فیری میڈوز اور نانگاپربت کو متعارف کروانے کے لیے ہمہ جہت کوششیں کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یہ سارے کام بظاہر مشکل لگتے ہیں لیکن حکومت اور مقامی لوگ دیانتداری سے انجام دینا چاہیے تو آسانی سے ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے نہ آئی ایم ایف کی ضرورت ہے نہ ہی امریکہ کی اجازت کی اور نہ ہی ان میں کوئی رکاوٹ ہے۔اگر مقامی لوگ اور سرکار گلگت بلتستان چاہیے تو اس کے لیے انٹرنیشنل ڈونرز بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں اور لابنگ بھی کی جاسکتی ہے۔ دنیا سیاحت فروغ دینے کے لیے فنڈ کیساتھ تیا ر بیٹھی ہے۔بس صرف دیانتداری کیساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
رائیکوٹ پل سے گلیشئر ویو پوائنٹ تک مجھے کہیں بھی ریاست نظر نہیں آئی، اور نہ ہی سرکاری انتظامات یا کسی قسم کی سہولیات۔کیا کوئی سرکار اپنے شہریوں اور عالمی سیاحتی پوائنٹ سے یوں آنکھیں چراتی ہے؟ ا ور لوگوں کی محبت کا عالم یہ ہے کہ ہر ہوٹل اور ہر ویو پوائنٹ پر ریاست پاکستان کا سبزہلالی پرچم ہمہ وقت لہرا رہا ہوتا ہے۔پاکستان زندہ باد، فیری میڈوز پائندہ باد
ریاست کی بے اعتنائی کا دکھ لیے واپسی
فیری میڈوز اور نانگاپربت کے ساتھ سرکار اور ریاست کی بے اعتنائی کا دکھ لیے ہم چار دن بعد فیری میڈو سے رخصت ہوئے۔حبیب اللہ اور احباب نے ہمیں پیدل ٹریک آکر رخصت کیا۔ہم رائیکوٹیوں کی محبتیں سمیٹ کرگھنے جنگلات میں بنی ٹریک پر چل پڑے۔راستے میں ایک جوان نے ہمارا بیگ اور سامان اٹھا لیا اور گدھے پر باندھ کر جیپ اسٹاپ پر پہنچا دیا۔
صنف نازک مگر آہنی جان
لبنی کے پاؤں زیادہ چلنے کی وجہ سے لہولہان ہوچکے تھے مگر وہ دوڑے جارہی تھی۔ پہلی دفعہ پتہ چلا کہ شہروں میں پلنے والی لڑکیاں بھی خوب ٹریکنگ کرسکتی ہیں۔ یہ صنف نازک ضرور ہیں مگر آہنی جان ہیں یعنی صنف آہن۔ ٹھیک دو گھنٹے بعد جیپ اسٹاپ پہنچے ۔ہم نے چار دن کے سفر میں سینکڑوں سیاح بوڑھی اور نوجوان خواتین کو ان ٹریکس پرچلتے دیکھا۔انگریز خواتین تو مردوں سے زیادہ پامردی دکھاتی ہیں لیکن پاکستانی خواتین بھی پیدل اور گھوڑوں پر ہنستے مسکراتے فیری میڈوز سے انجوائی کررہی تھیں۔واقعی خواتین پہاڑوں پر بھی مردوں کے شانہ بشانہ چل سکتی ہیں۔
گاڑیوں کی ایڈوانس بکنگ اور مقامی مسافر
خان گل اور اس کے بھائی نے ہمیں جیپ اسٹاپ سے رائے کوٹ پل تک گاڑی کا بندوبست کیا۔ یہاں اکثر گاڑیاں سیاحوں کے گروپس لے کر آتی ہیں۔ ایڈوانس بکنگ ہوتی ہے ۔ سیاح لوکل کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے لوکل مسافر ملکر خود جیپ بک کرلیتے ہیں۔کبھی کبھار کچھ گروپس کے ساتھ اٹیچ بھی ہوجاتے ہیں ۔ یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے کہ گروپ میں دو یا تین افراد ہوں۔ ہم نے بھی کچھ احباب کیساتھ ملکر جیپ بک کیا اور ٹھیک دیڑھ گھنٹے میں رائیکوٹ پل پر اتر گئے۔
قلب اور قالب کی دوری اور فتنہ کا اندیشہ
ہم سردست قالبی طور پر اپنے گھر اور گلگت میں ہیں لیکن قلبی طور پر فیری میڈوز میں ہی ہیں۔قالب واپس آیا ہے تو قلب کو بھی واپس آنا چاہیے۔ورنا قلب پر میڈوز کی کوئی فیری قبضہ نہ کرلیں۔قالب اور قلب کی یہ دوری زیادہ دیر مناسب نہیں، اگر یہ دوری برقرار رہی اور ہمارے قلب پر کسی پری نے قبضہ جمالیا تو ہماری خانگی زندگی برباد ہوکر رہے گی۔خواتین سوکن کو پسند نہیں کرتی،چاہیے یہ سوکن پری کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ہم پہلے سے سوکنوں کے تلخ تجربات سے گزررہے ہیں۔ مزید سوکنوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ایسے میں ایک اور فتنہ بپا نہ ہو۔
اس لیے اے دل آوارہ! فیری میڈوز اور نانگاپربت کو خیرباد کہہ کر واپس آجا۔
ختم شد