جنگ آزادی گلگت بلتستان اور فکری مغالطے
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو ریاست جموں وکشمیر کا الحاق انڈیا سے کیا تھا۔ اس کے بعد یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان میں تعینات مہاراجہ کے گورنر برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے آزادی کا اعلان کیا گیا۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے لوگوں نے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کی یا انڈیا سے؟ گلگت بلتستان کی آزادی کو بغاوت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے انڈیا سے بغاوت کی دوسری طرف
گلگت بلتستان کا مقبول بیانیہ یہ ہے کہ انہوں نے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کی حالانکہ ڈوگرہ حکمران نے جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل ہی انڈیا سے الحاق کیا تھا ۔اگر یہ فرض کریں کہ ہم نے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کی ہے تو پھر انڈیا کس بنیاد پر گلگت بلتستان پر دعویدار ہے؟
اس طرح کا ایک اور اہم مغالطہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے حوالے سے یہ ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان دراصل میجر براؤن کی شازش کا نتیجہ ہے اور یہ سب آپریشن دتہ خیل کی وجہ سے ممکن ہوا لیکن اس فرضی منصوبے کی دستاویز کسی نے دیکھی تک نہیں ہے لہذا اگر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو میجر براؤن کی کتاب میں درج آپریشن دتہ خیل کا نتیجہ سمجھا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خفیہ آپریشن کی دستاویز کہاں ہے جس کو آج تک کسی بھی انسان نے دیکھا تک نہیں ہے؟
حالانکہ اس دستاویز کا ذکر پہلی بار میجر براؤن کی کتاب میں کیا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کتاب میجر براؤن کی وفات کے 14 سال بعد شائع کرائی گئی۔ سوال یہ ہے میجر براؤن کے اس خفیہ پلان کی دستاویز کسی بھی مغربی دانشور یا تاریخ دان نے اپنی کسی بھی کتاب میں شائع نہیں کی ہے نہ ہی کوئی ریفرنس دستیاب ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں خفیہ دستاویزات چند سالوں بعد Declassified ہوتے ہیں اور اس ضمن میں برطانیہ کے قوانین بہت واضح ہیں جہاں قانون کے مطابق خفیہ دستاویزات کو پبلک کرنے کا عمل بنیادی طور پر پبلک ریکارڈز ایکٹ 1958 اور فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2000 کے تحت ہوتا ہے۔ یہ قوانین اور مخصوص حکومتی پالیسیاں، حکومتی ریکارڈز کو منتقل کرنے، ان کا جائزہ لینے، اور انہیں پبلک کرنے کے عمل کے لیے ایک فریم ورک قائم کرتی ہیں اور پبلک ریکارڈز ایکٹ 1958 کے اس قانون کے تحت حکومتی محکموں کو اپنے ریکارڈز دی نیشنل آرکائیوز میں محفوظ کرنے کے لیے منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصل میں دستاویزات کو 30 سال بعد منتقل کیا جاتا تھا، لیکن آئینی اصلاحات اور گورننس ایکٹ 2010 نے اس مدت میں ترمیم کی اور اس وقت وہ مدت 20 سال ہے جس کے بعد خفیہ دستاویزات کو پبلک کیا جاتا ہے۔
لیکن حیران کن بات ہے یکم نومبر 1947ء سے آج 2024 تک 77 سال گزر گئے لیکن دستاویز آپریشن دتہ خیل کھبی دنیا کے سامنے نہیں آئی۔ لگتا ہے دنیا میں صرف آپریشن دتہ خیل ہی واحد خفیہ دستاویز ہے جس سے پبلک کرنے سے دنیا میں طوفان برپا ہوگا۔ اصل بات یہ ہے وہ دستاویز حقیقت میں موجود ہی نہیں تھی بلکہ اس فرضی کہانی کے موجد میجر براؤن کے وہ نامعلوم دوست تھے جنہوں نے اس کی زندگی کی کہانی کو ایک کتاب کی شکل دے کر میجر صاحب کے وفات کے 14 سال بعد اس کی یادداشتوں کو کتابی شکل میں شائع کروائی اور انہیں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ہیرو کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
اس کتاب کی اشاعت سے قبل میجر براؤن صاحب کے اس کارنامے کا علم دنیا میں کسی کو نہیں تھا اس لئے وہ برطانیہ میں گھوڑوں کے ٹرینر کے طور پر ایک گمنام زندگی گزار رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میجر براؤن صاحب کی وفات کے بعد شائع اس کتاب کے انگریزی دیباچہ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ میجر صاحب کی اصلی ڈائری بھی کسی نے چوری کی تھی۔
سابق شاہی ریاست جموں و کشمیر پر دیگر مصنفین کی طرح احمد شجاع پاشا نے بھی ایک کتاب بعنوان” مسئلہ کشمیر” لکھی ہے اس کتاب میں بھی آپریشن دتہ خیل کے اس نام نہاد منصوبہ کے کسی دستاویز یا اس بابت کسی ریفرنس کا ذکر موجود نہیں ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ دستاویز پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر بھی گلگت بلتستان یا پاکستان کے کسی بھی دوست کے پاس اس نام نہاد آپریش دتہ خیل کی دستاویز موجود ہے تو شئیر کریں اور ہمارے علم میں اضافہ کریں۔
جنگ آزادی گلگت بلتستان سے جڑے ان اہم تاریخی اور فکری مغالطوں پر علمی بحث کی ضرورت ہے تاکہ حقائق واضح ہوں کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان یکم نومبر 1947ء میں