کالمز

مولویوں کی تضحیک

ہمارے معاشرے میں مولوی کو بدنام کرنا ایک عام رجحان بن چکا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ معاشرتی تقسیم اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔ یہاں مولوی سے مراد اہل سنت کے علماء ہیں، جنہیں بدنام کرنے میں نہ صرف دیگر مکاتبِ فکر کے لوگ، بلکہ خود اہل سنت کے افراد بھی پیش پیش ہیں۔

یقیناً، مولویوں پر تنقید کرنا، جہاں وہ غلطی کریں، ضروری ہے۔ لیکن ان کی بلاوجہ تضحیک اور بدنامی ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔ ہر چیز کو مولوی کے فتویٰ کیساتھ جوڑنا معمول بن گیا ہے۔ بیچارے مولویوں کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا ہے، ایسی چیزیں ان سے جوڑ دی جاتی ہیں۔ تنقید اور رسوائی میں ایک واضح فرق ہے۔ تنقید ایک مثبت عمل ہے جو اصلاح کے لیے کی جاتی ہے، جبکہ رسوائی کسی کو نیچا دکھانے اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں، بدقسمتی سے، یہ رویہ عام ہو چکا ہے کہ مولویوں کو محض ان کے لباس، روایات یا طرزِ زندگی کی بنیاد پر بدنام کیا جاتا ہے۔

اہل تشیع اور اسماعیلی مکاتبِ فکر میں اپنے مذہبی رہنماؤں کے احترام کا رویہ قابلِ ستائش ہے۔ وہ اپنے مذہبی شیوخ اور الواعظین کو نہایت عزت دیتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ میرا 15 سالہ تجربہ و مشاہدہ ہے۔ وہ اپنے مذہبی شیوخ و الواعظین پر کسی محفل میں گفتگو نہیں کرتے ۔انتہائی معدودے لوگ اپنے مذہبی رہنماؤں پر اگر کسی قسم کی تنقید کریں تو وہ بھی انتہائی محتاط انداز میں کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ان کے ہاں ، اہل سنت، مولویوں کی تضحیک معمول کا حصہ ہے۔ یہ رویہ نہ صرف علماء کی توہین ہے بلکہ معاشرتی تقسیم کا باعث بھی بن رہا ہے۔ میرے اہل تشیع اور اسماعیلی برادری کے ہزاروں دوست ہیں، جو اپنے شیوخ اور الواعظین پر ایک لفظ نہیں بولتے، مگر اہل سنت مولویوں پر بھتیاں مزے سے کس لیتے ہیں ۔

خود اہل سنت کے افراد بھی، جو کہ مولویوں کے ماننے والے ہیں، اپنے علماء کی تضحیک کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ ایک خطرناک رجحان ہے جو دینی قیادت کی کمزوری کا باعث بن رہا ہے۔ علماء کا احترام نہ صرف دینی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ جب ایک معاشرہ اپنے دینی رہنماؤں کی عزت نہیں کرے گا، تو وہ دینی تعلیمات کی قدر و قیمت سے بھی محروم ہو جائے گا۔

مولویوں کی بلاوجہ تضحیک ایک غیر منصفانہ اور نقصان دہ عمل ہے۔ اگر مولویوں کی اصلاح ضروری ہے تو اسے مثبت تنقید کے ذریعے کیا جانا چاہیے، نہ کہ ان کی تضحیک اور رسوائی کے ذریعے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے علماء کی عزت کریں اور اگر ان پر تنقید کریں تو تعمیری انداز میں کریں تاکہ معاشرہ دین سے وابستہ رہتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button