کالمز

جدائی کا دکھ اور انسانیت کا ساتھ

تحریر: حسینہ رحمت

یہ لمحہ میرے لیے ایک ناقابلِ بیان دکھ اور صدمے کا لمحہ تھا۔ میں ایک اجنبی ملک میں تھی، دور کہیں، جہاں کوئی اپنا نہیں تھا، جہاں کوئی جماعتی ساتھی نہیں تھا جو میرے ساتھ میرے غم کو بانٹ سکتا۔ دل بوجھل تھا، آنکھیں نم تھیں، اور روح جیسے ایک شدید خلا میں ڈوب چکی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اکیلی ہوں، جیسے میرے ارد گرد کوئی نہیں جو میرے اس درد کو سمجھے، جو میرے امام کے بچھڑنے کا دکھ محسوس کر سکے۔

لیکن پھر، میرے سنی اور شیعہ بھائی اور بہنیں، جنہوں نے میرے آنسوؤں کو محسوس کیا، مجھے گلے لگایا، اور میرے غم کو بانٹا۔ انہوں نے مجھے یہ احساس دلایا کہ ہم سب کے عقائد اپنی جگہ، لیکن جو چیز ہمیں جوڑتی ہے، جو ہمیں ایک رکھتی ہے، وہ اسلام کا اصل پیغام ہے—محبت، قبولیت، اور ایک دوسرے کا سہارا بننا۔

ہم اس محبت، اس اپنائیت، اور اس بھائی چارے کی ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔ یہ لمحہ ہمارے لیے اس درس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ اسلام فرقوں میں بٹنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو جوڑنے کے لیے آیا ہے۔ ہمارے عقائد مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارا دین ایک ہے، ہماری محبت ایک ہے، اور ہمارا درد بھی ایک ہے۔

ہم دل کی گہرائیوں سے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے اس غم میں ہمارا ساتھ دیا۔ آج میں پہلے سے کہیں زیادہ پختہ ایمان ہے اسلام صرف ایک مذہب نہیں، بلکہ محبت اور قبولیت کا پیغام ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو ہمارے نبیﷺ نے دیا، یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں جوڑتا ہے، اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا سہارا بننے کا درس دیتی ہے۔
یہ غم صرف اسماعیلی برادری تک محدود نہیں رہا، بلکہ تمام مسلم اور غیر مسلم بھائیوں نے ہمارے ساتھ اس دکھ میں شرکت کی۔ مختلف مکاتب فکر کے افراد، مختلف مذاہب کے ماننے والے، سب نے ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا، ہمارے آنسو پونچھے، اور ہمیں یہ احساس دلایا کہ انسانیت کی محبت فرقوں، مذاہب اور سرحدوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ ہم ان تمام افراد کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمارے غم کو بانٹا، ہمیں حوصلہ دیا، اور اس مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا۔

آغا خان چہارم کی زندگی صرف ایک امام کی حیثیت سے نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت کے ایک مشن کے طور پر جانی جاتی ہے۔ انہوں نے پوری دنیا میں تعلیم، صحت، اور ترقی کے بے شمار منصوبے شروع کیے، جن کا مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود تھا۔ ان کی تعلیمات محبت، امن، رواداری، اور خدمت پر مبنی تھیں، اور یہی وہ اقدار ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

آج جبکہ ہم غم کے اس لمحے سے گزر رہے ہیں، ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ خدمتِ خلق میں مصروف رہیں گے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسماعیلی جماعت کو یہ ہمت دے کہ وہ امام الزمان کی دی گئی راہنمائی کو مشعل راہ بناتے ہوئے انسانیت کی خدمت کو اپنا

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button