کالمز

شاہ کریم الحسینی آغاخان اور فکری سرمائے کی تشکیل

"ہم دنیا کو جمہوریت کے لئے اس وقت تک محفوظ نہیں بنا سکتے ہیں جب تک ہم دنیا کو تکثیریت کے لئے محفوظ نہیں بناتے ہیں”

شاہ کریم الحسینی آغاخان

دنیا کی ہر کہانی ہماری ذاتی تجربات سے ہی پھوٹتی ہے اور جوں جوں ہمارے مشاہدے، مطالعے اور تجربوں کے آفاق کشادہ ہوتے جاتے ہیں، توں توں یہ کہانی باہر کے دنیا اور کائنات کو اپنے اندر سمونے لگتی ہے۔ یوں ذاتی یا موضوعی تجربہ ہماری ذات سے نکل کا دنیا کا حصہ بن جاتا ہے۔

اس تمہید کا مقصد ایک ایسی شخصیت کے متعلق لکھنا ہے جنھوں نے اسلام کو جدیدیت کا مخالف بنانے کی بجائے جدیدیت سے مکالمے کا ذریعہ بنایا اور یوں ایک ایسی الفاظ سازی کی جس نے موجودہ ثنویت سے ماورا ہوکر ایک کلی حقیقت کی تشکیل کی۔

میری مراد اسمعیلیوں کے انچاسویں امام شاہ کریم الحسینی سے ہیں۔ آنے والے مندرجات میں میری کوشش ہوگی کہ ان کی شخصیت، افکار اور خدمات پر اپنی کچھ موضوعی معروضات آپ احباب کی قرات کی نذر کروں۔ میں اس کی ابتدا اپنی کہانی سے کرونگا۔

کچھ عرصے پہلے میری آٹھ سالہ بیٹی نے مجھے ایک کارڈ دکھایا، جو اُس نے ماؤں کو خراج عقیدت پیش کرنے کےدن، (جسے مادر ڈے بھی کہا جاتا ہے) کی مناسبت سے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا، اور کہا کہ یہ کارڈ انھوں نے اپنی امی کے لئے بنایا ہے۔ میں نے ان کی آرٹ کی حس اور ہنر کی تعریف کی۔ اس کے بعد بیٹی نے کہا کہ کیا میں نے اپنی والدہ کے لئے ایسا کارڈ بنایا ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو کہنے لگی کہ پاپا آپ کی امی ہماری امی کی طرح پیاری ہیں۔ آپ نے انھیں ہیپی مادر ڈے کا کارڈ نہیں بنا کر اچھا نہیں کیا ہے۔

میں نے کچھ توقف کے بعد جواب میں کہا کہ بیٹا میں نے آپ کی دادی کو اس لئے کارڈ نہیں دیا کیونکہ وہ ناخواندہ ہے۔ پھر انہوں نے ناخواندہ کا معنی پوچھا تو میں نے سلیس اردو میں کہا کہ وہ پڑھ اور لکھ نہیں سکتی۔ ایسے بندے یا بندی کو ناخواندہ کہتے ہیں۔ میری بیٹی کو بڑی حیرت ہوئی کہ دنیا میں کوئی ان پڑھ بھی ہوسکتا ہے۔ میں نے پھر اپنی بیٹی کو گلگت بلتستان میں پچاس سال پہلے کی تعلیمی، معاشی اور سماجی صورتحال کے متعلق بتایا کہ کس طرح گلگت بلتستان اور چترال اور خاص طور پہ ہنزہ غربت اور جہالت میں ڈوبا ہوا تھا۔

اپنی بیٹی کو اس تاریخ کے متعلق بتانا اس لئے ضروری تھا کہ انھیں یہ آگاہی ہو کہ ہم نے پچھلے پانچ دہائیوں میں صدیوں کا سفر کس طرح طے کیا ہے۔ اس تبدیلی نے نہ صرف ہماری معروضی دنیا کو تبدیل کردیا بلکہ ہمارے اذہان و افکار کو بھی یکسر بدل دیا۔ تبھی تو ان پڑھ کا لفظ جو میری والدہ محترمہ کے وجود کا جزولانیفک تھا اب میری بیٹی کے لئے بالکل اجنبی تھا۔ ہماری تاریخ کے متلعق اپنی بیٹی کو آگاہ کرنے کا ایک مقصد تھا۔ چونکہ میں نے خود لندن میں پڑھا ہے، اسلئے اگر میری بیٹی کو اس تاریخ کی آگاھی نہ ہو تو وہ ساری زندگی اس مغالطے میں رہے گی کہ اس کے سارے آبا و اجداد لندن اور مغرب سے تعیلم یافتہ تھے۔

1957 میں جب شاہ کریم الحسینی نے اسماعیلی مذہب کی امامت کا منصب سنبھالا تو اس وقت ان کی عمر محض 20 سال تھی، مگر ان کو ایک بہت بڑی وراثت ملی تھی جس کی بنیاد ان کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے رکھی تھی۔ امام سلطان محمد شاہ نے اسماعیلی جماعت میں جدید اصطلاحات اور ادارے متعارف کروائے۔ دوسرے الفاظ میں امام سلطان محمد شاہ اسماعیلی فرقے میں جدیدیت کے بانی تھے۔ مزید یہ کہ سلطان محمد شاہ اغاخان کی امامت 72 سالوں تک محیط تھی۔ اتنی بڑی وراثت کو سنھبالنا اور آگے بڑھانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ شاہ کریم الحسینی کی تربیت اس جدید زمانے کے تقاضوں اور چیلنجزز کو دیکھ کر کی گئی۔

جدیدیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نے مذہب کو یا تو ذاتی زندگی میں دھکیل دیا یا  پھر مکمل طور پر قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔ اول الذکر فکر کا نمائندہ لبرلزم ہے اور آخر الذکر سوچ ہمیں کمیونسٹ سوویت یونین، چائنا اور کمیونزم نظام سے منسلک دیگر ملکوں میں نظر آتی ہے۔ جدیدیت کے ایسے ہی سماجی, فکری و معاشی نظام میں شاہ کریم الحسینی نے امامت کی ذمہ داری سنبھالی۔ انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی جیسے نامور ادارے سے اسلامیات کے مضمون میں ڈگری حاصل کی تھی۔ ایک جدید تعلیمی درسگاہ میں مذہبی تعیلم نے انھیں اسلام کے فلسفے کو جدیدیت کے استعاروں میں ڈھال کر بیان کرنے میں مدد کی۔ وہ ساری زندگی جدیدیت اور مذہب کی ثانویت، دوئی یا مخالف ہونے کے تصورات کو رد کرکے تکثیریت کا پرچار کرتے رہے۔

اپنی امامت کے ابتدائی عشروں میں ان کی توجہ کا مرکز تیسری دنیا سے غربت و افلاس، اور جہالت کو ختم کرنے پر تھا۔ اس لئے انھوں نے اے کے ڈی این (آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک) کا قیام عمل میں لایا جس کے ذریعے ایشیا اور افریقہ کے تیس سے زائد ممالک میں معیشیت، سماج، تعلیم، صحت و ثقافت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی۔ یہ اقدامات ان معاشروں میں صرف سماجی تبدیلی اور معاشی ترقی بلکہ سماجی سرمائے کی تشکیل کا باعث بننے۔ اسی سماجی سرمائے نے جدیدیت، تعلیم، علم اور خواتین کے متعلق رویوں میں تبدیلی پیدا کی اور لوگوں کو اس اہل بنایا کہ وہ اپنے سماج کو جدید تقاضوں کے مطابق اپنی عقل و فکر سے ڈھال سکیں۔

شاہ کریم الحسینی کے ہر کام کے سوتے اسلام کے ان آفاقی اقدار سے پھوٹتے تھے جن کا مقصد سماج میں امید پیدا کرنا تھا۔ معیاری زندگی کی بہتری کے لئے جو بھی معاشی اقدامات انھوں نے اٹھائے اس کا مقصد امید کی کرن پیدا کرنا تھا۔ اگر کسی سماج سے امید اٹھ جاتی ہے تو وہ تاریکی اور ابتری میں گر جاتا ہے۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معشیت ، سیاست اور سماج کو اقدار کے مطیع کردیا گیا نہ کہ اقدار کو ان تینوں کے ماتحت۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی یا معاشی و سماجی نظام جو بنیادی انسانی اقدار سے عاری ہو، وہ دیرپا نہیں ہوتا ہے۔

شاہ کریم الحسینی کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے امامت اس دور میں سنبھالی جب دنیا دو نظریاتی بلاکس میں تقسیم تھی۔ ان کے ابتدائی عثرے زیادہ تر سماجی و معاشی معاملات کو حل کرنے میں گزرے۔ مگر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ان کا مذہبی ڈسکورس سیاسی ہونے لگا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے خطابات میں سول سوسائٹی، جہالت کا تصادم، سیاسی نظام، تکثیریت، عوامی طاقت، جمہوریت، آفاقی اقدار، شہریت، نقطہ نظر، گلوبل ویلیج، فاصلوں کا سمٹنا اور انسان معاشروں پر اس کے اثرات، طاقتور ملکوں کی پالیسیاں، غربت اور امارت میں تفاوت وغیرہ کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔

ان معاملات کے متلعق ان کے جو تصورات تھے وہ واقعاتی نہیں تھے بلکہ طویل سوچ و بچار کا نتیجہ تھے جس میں وہ ایک متبادل جدیدیت متعارف کروانا چاہتے تھے جس میں زندگی کا ہر پہلو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے تفاعل کرکے ایک متبادل سماج اور سوچ کی تشکیل کر سکے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ کریم الحسینی جدید فلسفیانہ ماخذوں سے الفاظ کو اٹھا کر ان کی تشریح انسان کے وجودی تجربے کے مطابق کرتے ہیں۔ اس طرح وہ جدیدیت میں مذہبی روایت کے ان اصولوں کو متعارف کرواتے ہیں جو عصر حاضر کے وجودی معموں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ گو کہ کچھ لوگ اس پہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ مذہب کو جدیدیت کے تابع کرنے کی کوشش ہے۔ مگر جب اس عمل کو ایک کلی فکر کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت اور جدیدیت میں مکالمہ کو تشکیل دینے کی کوشش ہے۔ اس مکالمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے جدیدیت مذہب کے لیے نافکر ہوکر رہ گیا ہے اور مذہب جدیدیت کے لئے نافکر۔ یوں دونوں جمود کا شکار ہوگئے ہیں۔

مذہب کے اندر ان جدید تصورات پر بات چیت کرنے سے مذہب کا دامن نہ صرف مزید کشادہ ہوجاتا ہے، بلکہ مذہب کے پاس جدید تصورات کے وہ الفاظ و افکار در آتے ہیں جس کے ذریعے سے مذہب جدید زمانے میں اپنی ہی تفہیم کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جدیدیت کو مسترد کرنے کی روایت نے خدا کے تصور کو محدود کردیا ہے۔ اب مذہب نئے الفاظ و تصورات کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ اس لئے جدیدیت مذہب کو تباہ کرنے کی بجائے مزید مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اسی طرح جدیدیت اس قابل ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی نافکر کے مخفی گوشوں پر روشنی ڈال سکے۔ اس تفاعل میں جدیدیت اور مذہب ایک دوسرے کی رد میں الجھنے کی بجائے انسانی زندگی کی سمفنی کی دھن بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ اصول صرف جدیدیت اور روایت و مذہب کے تفاعل تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بنیادی جمہوری و کو موسمو پولیٹن اقدار کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جمہوری اقدار کی تشکیل تبھی ممکن ہوتی ہے جب ہم کچھ کہنے اور دینے، سننے، ہمدردی کرنے، اور لاعلمی کی پیدا کردہ جہالت کی جگہ علم کی مدد سے تفہیم پیدا کریں۔ مگر جدید زمانے میں ابلاغی اور معلوماتی ٹیکنالوجی نے تفہیم کی جگہ غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔ اب معلومات کے سیلاب میں علم بہہ گیا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد شاہ کریم الحسینی نے ہنٹنگٹن کے "تہذیبوں کے تصادم” کے نظریے کی رد میں ایڈورڈ سعید کے وضع کردہ جملہ "جہالت کا تصادم” کو استعمال کرتے ہوئے تہذیبی مکالمے پہ زور دیا۔ اگر تہذیبیں ایک دوسرے کی رد ہوتیں تو مشرق سے ابھرا ہوا مسیحی مذہب یورپ میں نہیں پنپتا۔ یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر سے پیدا ہونے والے تصادم والے رویے کو ختم کرنے کے لئے شاہ کریم آغا خان نے مسلم تہذیب اور معاشروں کے مطالعے کے لئے لندن میں ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ (انسٹی ٹیوٹ فور دی سٹڈی آف مسلم سویلیلائزیشنز)کی بنیاد رکھی۔ یہاں پر جمع (سیویلائیزیشنز میں) کا صیغہ بہت اہم ہے کیونکہ اس میں اسلامی تہذیب ایک نہیں بلکہ تکثیریت پہ مبنی ہے۔ مغرب میں اسلام کے متعلق یک طرفہ نقطہ نظر کو زائل کرنے کے لئے 1978 میں انسٹی ٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹیڈیز (آئی آئی ایس) کو لندن میں قائم کیا۔ یہ دونوں ادارے امامت کے ادارے کے وراثت کا ایک تسلسل ہے جس کے تحت شاہ کریم الحسینی کے آباواجداد نے مصر میں الازہر یونیورسٹی کی تشکیل کی تھی۔ اس ادارے کے تحت نہ صرف اسلام کے متعلق جدید تقاضوں کے تحت ریسرچ ہوتی ہے، بلکہ ایسے افراد تیار کئے جاتے ہیں جو اپنے معاشروں میں واپس جاکر ایک ایسے فکری سرمایے کی تشکیل کرسکیں۔ یہی فکری سرمایہ ہی بہتر سماج اور سماجی تبدیلی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ورنہ جس سماج میں بغیر فکری سرمایے کے پیسہ و سرمایہ آجاتا ہے ،وہ معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

میں شاہ کریم الحسینی کا ذاتی طور پہ اس لئے بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے مجھے لندن میں تقابل ادیان اور ہومینٹیز میں پڑھائی کے لئے دو سال اور ماسٹرز کے لئے لندن سکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس فلسفے کے مطالعے کے لئے سکالرشپ مہیا کی۔ اس موقعے نے مجھ کو مجھ سے چھین کر ایک نئی آنکھ عطا کی جو افکار و خیالات پر نظر رکھتی ہے نہ کہ گاڑی اور عہدے پر۔

ایک ناخواندہ ماں کے بیٹے کا فکر کی دنیا میں داخل ہونا میری ماں کے لئے ایک معجزہ ہے، لیکن بیٹا کچھ زیادہ ہی خرد افروزی کے چکر میں کبھی کبھی جہالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ چونکہ ہم اس پہلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کو علم اور پیسے سے واسطہ پڑا۔ اس لئے ہم سے علم ودولت دونوں ہضم نہیں ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ ہماری نئی نسل ہم سے بہتر ہوگی۔

 میری بیٹی کو ان کی دادی کے متعلق کہانی سنانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ اپنے باپ کی طرح نہ بننے، بلکہ علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عاجز و انکسار بنے۔ امام شاہ کریم الحسینی کی ساری زندگی اور افکار انسانی ہمدردی پر مبنی تھی۔ انشاللہ ان کے افکار اس سوفٹ اور انسانی جذبات سے عاری اے آئی ٹیکنالوجی کے دور میں ایک ہمدرد نسل کو جنم دے گی جن کا مرکز انسان ہونگے۔

پس نوشت: میری خوش قسمتی ہے کہ میں شاہ کریم الحسینی کی رحلت کے دن پرتگال کے شہر لزبن میں موجود تھا۔ یہ مجھے تعلیم کے مواقع فراہم کرنے پر شاہ کریم الحسینی کا شکریہ ادا کرنے کا ایک بہترین موقع ملا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button