قہقہوں کا امین آج بے بسی کا شکار

زندگی کا المیہ یہی ہے کہ جو لوگ دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں، وقت کی بے رحمی انہیں غم اور بے بسی کی تصویر بنا دیتی ہے۔ اپو یوسف بھی انہی چہروں میں سے ایک ہیں، جو اپنی خوش گفتاری، شگفتہ مزاجی اور بے مثال مزاحیہ انداز کی بدولت بلتستان بھر کے عوام میں بے حد مقبول تھے۔ جہاں بھی جاتے، ہنسی اور خوشی کا سماں بندھ جاتا۔ مگر آج وہ بیماری اور بے کسی کی حالت میں کورو گاؤں کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دو سال قبل ایک حادثے میں ان کے پاؤں میں شدید فریکچر آیا، بعد میں علاج سے ٹھیک ہوا مگر آج وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔ ان کی دنیا محض ایک چھوٹے سے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جو کسی مخیر شخص کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہی کمرہ ان کا بستر، بیٹھک، اور ضروریاتِ زندگی کا واحد مرکز ہے۔ بدقسمتی سے نہ ان کے پاس طبی سہولیات ہیں، نہ کوئی تیماردار، اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ جس سے وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں۔
المیہ یہ ہے کہ سماجی خدمت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والی تنظیمیں اور لوگ آج مکمل غائب ہے اگر خدمت خلق صرف تقریبات، اشتہارات اور تصاویر تک محدود ہو چکی ہے، تو یہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
اپو یوسف کا معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں، بلکہ ہمارے سماجی رویے کا عکاس ہے۔ ایسے لوگ، جو دوسروں کے لئے خوشی بکھیرتا تھا اسکو آج وہ بے یار و مددگار چھوڑ دینا ہماری اخلاقی ناکامی ہے۔ حکومتِ گلگت بلتستان، ضلعی انتظامیہ، سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کو فوری طور پر ان کی مدد کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اپو یوسف کو اس وقت ایک ایسی قیام گاہ کی ضرورت ہے جہاں وہ عزت و وقار کے ساتھ دو وقت کی روٹی اور علاج معالجے کی سہولیات کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اگر ہم واقعی ایک مہذب اور انسان دوست معاشرے کا حصہ ہیں، تو ہمیں آج ہی ان کے لئے کچھ کرنا ہوگا، اس سے پہلے کہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اور ہمارا ضمیر ہمیں ہمیشہ کے لئے ملامت کرتا رہے۔