کالمز

محکمہ صحت میں پالیسیوں کا فقدان اور اس کے اثرات

صحت کسی بھی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، جس کا براہ راست تعلق انسانی زندگی کے معیار سے ہوتا ہے۔ ایک مستحکم اور مؤثر صحت کا نظام کسی بھی خطے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ گلگت بلتستان جیسے دور دراز اور دشوار گزار علاقے میں صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔ ڈاکٹروں کی کمی، وسائل کی غیر مساوی تقسیم، اور غیر مؤثر تبادلوں کی پالیسی جیسے مسائل نے اس شعبے کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ صحت کا شعبہ ڈاکٹروں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہی افراد عوام کو طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جب ڈاکٹروں کی تعیناتی غیر متوازن ہو، تبادلوں کا نظام دباؤ کا شکار ہو، اور حکومت مؤثر پالیسی بنانے میں ناکام رہے، تو اس کا نقصان براہ راست عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کالم میں، ہم محکمہ صحت کو درپیش ان مسائل کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کے ممکنہ حل تجویز کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ صحت کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنایا جا سکے۔

گلگت بلتستان میں محکمہ صحت کو درپیش مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ ڈاکٹروں، خصوصاً اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے تبادلوں کی غیر مؤثر پالیسی ہے۔ سرکاری محکموں میں تبادلوں اور تعیناتیوں کے لیے ایک واضح نظام ہوتا ہے تاکہ وسائل اور مہارت کو مساوی طور پر تقسیم کیا جا سکے، مگر محکمہ صحت میں ایسا کوئی مؤثر طریقہ کار نظر نہیں آتا۔ نتیجتاً، حکومت ڈاکٹروں کے معاملے میں مکمل بے بس دکھائی دیتی ہے۔

گلگت بلتستان کے بنیادی صحت مراکز اور ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے، جبکہ سکردو اور گلگت جیسے بڑے شہروں میں تعینات ڈاکٹر وہاں سے ہلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ جب بھی کسی ڈاکٹر کا تبادلہ دیامر، غذر، استور، گانچھے یا ہنزہ جیسے اضلاع میں کیا جاتا ہے، تو فوری طور پر احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کی تنظیمیں بھی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہڑتالوں اور دھمکیوں کا سہارا لیتی ہیں، جس کے نتیجے میں حکومت تبادلوں کو مؤثر انداز میں نافذ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

اس وقت ریجنل ہسپتال سکردو میں چھ چائلڈ اسپیشلسٹ، چھ سرجن، سات انیستھیزیا اسپیشلسٹ، چھ گائناکالوجسٹ، چار ریڈیالوجسٹ، چار میڈیکل اسپیشلسٹ، تین کارڈیالوجسٹ، دو گیسٹرو اسپیشلسٹ اور دو آرتھوپیڈکس اسپیشلسٹ تعینات ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے متعدد اسپیشلسٹ اتنے بااثر ہیں کہ آج تک ان کا کہیں اور تبادلہ نہیں ہوا۔

اس کے برعکس، ضلع گانچھے کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ایک بھی میڈیکل، ریڈیالوجی یا آرتھوپیڈکس اسپیشلسٹ موجود نہیں، حالانکہ یہ انتہائی اہم شعبے ہیں۔ اسی طرح، وہاں ایک ہی سرجن تعینات ہے، جو اگر چھٹی پر چلا جائے تو مریضوں کو سرجری کے لیے سکردو جانا پڑتا ہے۔ اگر ڈسٹرکٹ ہسپتال خپلو کو فعال کیا جائے، تو سکردو ہسپتال پر دباؤ کم ہو سکتا ہے۔

دنیا بھر میں ملازمین کی یونینز کا بنیادی مقصد اپنے اراکین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا اور کسی بھی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہوتا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کی یونینز کا طرزِ عمل بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ یہاں یونینز ڈاکٹروں کی ایک طاقتور لابی کے طور پر کام کر رہی ہیں، جو صرف اپنے مخصوص مفادات کا تحفظ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، بجائے اس کے کہ پورے خطے کے عوام کے حقوق کی فکر کریں۔

محکمہ صحت میں بھرتیوں کے لیے بھی ناقص پالیسیوں کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان کے ہسپتالوں میں چار مختلف بھرتی کے نظام چل رہے ہیں، جن کے لیے الگ الگ پیکجز مقرر کیے گئے ہیں۔ ایس پی ایس (SPS) کے تحت بھرتی کیے گئے ڈاکٹروں کو پانچ لاکھ روپے دیے جا رہے ہیں، مگر ان کی ملازمت مستقل نہیں۔ جبکہ مستقل بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ڈاکٹروں کو کم تنخواہ دی جاتی ہے، اگرچہ ان کی ملازمت کی ضمانت ہوتی ہے۔ پی پی ایس کے تحت کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تنخواہیں بھی پانچ لاکھ مقرر ہیں۔ اسی طرح، شفاء پروجیکٹ کے تحت کام کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی پانچ لاکھ روپے ماہانہ دیے جا رہے ہیں۔

یہ غیر مساوی تنخواہیں اور ملازمت کی شرائط نہ صرف ڈاکٹروں میں بے چینی پیدا کر رہی ہیں، بلکہ صحت کے نظام میں مزید عدم استحکام کا باعث بھی بن رہی ہیں۔

ان مسائل کے مستقل حل کے لیے کچھ اقدامات ناگزیر ہیں تبادلوں کے لیے منظم اور شفاف پالیسی مرتب کی جائے، جس کے تحت ہر ڈاکٹر کو ایک یا دو سال کے لیے ہر ضلع میں خدمات انجام دینا لازمی قرار دیا جائے۔ یونینز کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے تاکہ وہ عوامی خدمت پر توجہ دیں اور غیر ضروری احتجاج اور بلیک میلنگ کا سدباب ہو۔ ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اگر وہ تبادلے کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے انکار کریں، جیسے تنخواہ کی بندش یا ملازمت سے برخاستگی۔ بھرتیوں کا یکساں نظام متعارف کرایا جائے تاکہ تمام ڈاکٹروں کو برابر مواقع اور مساوی تنخواہیں ملیں۔ دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کو اضافی مراعات دی جائیں، جیسے بہتر تنخواہ، رہائش اور دیگر سہولیات، تاکہ وہ خوش دلی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو متحرک کیا جائے تاکہ وہ حکومت کا ساتھ دیں اور ڈاکٹروں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھائیں۔

گزشتہ دس سالوں میں، اگرچہ گلگت اور سکردو کے ہسپتالوں میں سینکڑوں اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اور درجنوں نئے شعبے شامل کیے گئے ہیں، مگر بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔ اگر ہم سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا موازنہ کریں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نجی ہسپتالوں میں کم وسائل کے باوجود بہتر نتائج نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سرکاری محکموں میں غیر مؤثر پالیسیاں اور عملے کے غیر سنجیدہ رویے ہیں۔

جب تک حکومت ڈاکٹروں کے تبادلوں، بھرتیوں اور تنخواہوں کے فرق کو ختم کرنے کے لیے سختی سے عمل درآمد نہیں کرے گی، تب تک دور دراز علاقوں کے عوام کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button