کالمز

قلم پکڑانے والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں

خادم حسین اشراقی کوئی دہشت گرد نہیں، بلکہ وہ ایک ایسے روشن خیال استاد ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے علاقے خپلو کا رخ کیا اور وہاں کے نوجوانوں کے دلوں میں علم کا چراغ جلانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ سرسید احمد خان کی تعلیمی جدوجہد اور علی گڑھ تحریک سے متاثر ہو کر انہوں نے بھی اپنے علاقے میں ’’علی گڑھ‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا، تاکہ پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے لیے روشنی کی کوئی کرن پیدا کی جا سکے۔ ان کی محفل ہمیشہ تعلیم، شعور اور ترقی کی باتوں سے مزین ہوتی تھی۔ وہ جہاں بھی جاتے علم کی اہمیت پر زور دیتے اور یہی سوچ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔

انہوں نے اپنے علاقے کے نوجوانوں کے لیے انگلش لینگویج سنٹر قائم کیا، جہاں سینکڑوں لڑکے اور لڑکیاں علم حاصل کر کے نہ صرف اپنی شخصیت میں نکھار لائے بلکہ اپنی عملی زندگی میں آگے بڑھنے کے قابل ہوئے۔ اشراقی صاحب صرف استاد نہیں تھے، بلکہ وہ ایک رہنما اور رہبر کی حیثیت رکھتے تھے جو نوجوانوں کو خواب دکھاتے اور ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے۔

ان کا دل ہمیشہ ظلم و زیادتی اور ناانصافی پر تڑپ اٹھتا تھا۔ وہ کھلے لفظوں میں حق اور سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے تھے اور کسی بھی محفل یا بیٹھک میں وہ علاقے کی ترقی اور عوامی مسائل پر آواز بلند کرتے۔ وہ تعلیم کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے تھے اور بار بار یہی کہتے کہ اگر معاشرہ آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اسے جہالت کے اندھیروں کو مٹا کر علم کی روشنی کو اپنانا ہوگا۔

ایسے شخص کو محض ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کے جرم میں گرفتار کرنا، ہتھکڑیاں پہنانا اور جیل بھیجنا نہ صرف افسوسناک بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں اس طرح پکڑا گیا جیسے کوئی خطرناک دہشت گرد ہو، حالانکہ وہ ایک استاد ہیں جنہوں نے ہمیشہ نوجوانوں کو قلم پکڑنے کی تلقین کی۔ اختلافِ رائے اپنی جگہ لیکن کسی استاد کو ہتھکڑی لگا کر مجرموں کی صف میں کھڑا کرنا کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان نہیں ہو سکتا۔

خادم حسین اشراقی کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر ان کی خدمات، ان کی سوچ اور ان کے خوابوں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ وہ ایک استاد ہیں، ایک رہنما ہیں، ایک حساس دل رکھنے والے انسان ہیں جو اپنے علاقے اور اپنی قوم کو جہالت سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھ کر ہر وہ شخص دکھی ہے جو تعلیم، شعور اور روشنی کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خادم حسین اشراقی جیسے لوگ کسی معاشرے کے اصل معمار ہوتے ہیں۔ ان پر پابندیاں لگانا اور انہیں قید کرنا نہ صرف ان کی ذات کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اس پورے معاشرے کے ساتھ بھی ناانصافی ہے جو تعلیم اور ترقی کی راہ دیکھ رہا ہے۔ ایسے استاد کو دبانے کے بجائے ان کی قدر اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، کیونکہ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ امید اور روشنی کی علامت ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button