کالمز
گلگت بلتستان کا المیہ: قدرت کی چیخ اور حکومت کی خاموشی

“زمین انسان کی ملکیت نہیں، بلکہ انسان زمین کا مقروض ہے۔ جب ہم قرض اتارنے کے بجائے زمین کو زخمی کرتے ہیں، تو قدرت خاموش نہیں رہتی۔ وہ کبھی سیلاب، کبھی خشک سالی اور کبھی ہیٹ ویو کی شکل میں اپنا حساب لیتی ہے۔”
قدرت کے ساتھ ہمارا رشتہ زندگی اور موت کا ہے۔ پانی، ہوا، برفانی پہاڑ اور جنگلات ہماری سانسوں کے ضامن ہیں، لیکن ہم نے انہیں محض منظر یا وسائل سمجھ کر برباد کیا۔ حالیہ سیلاب نے گلگت بلتستان کو ایک بار پھر یہ سبق دیا کہ انسان جتنا بھی ترقی کر لے، قدرت کے سامنے بے بس ہے۔
2025 کا سیلاب — ریکارڈ ٹوٹ گئے
جولائی 2025 میں چلاس میں 48.5 ڈگری سینٹی گریڈ اور بونجی میں 46 ڈگری درجہ حرارت ریکارڈ ہوا۔ یہ صرف اعداد نہیں تھے بلکہ آنے والی تباہی کا اعلان تھے۔ شدید گرمی نے گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلایا اور نتیجہ Glacial Lake Outburst Floods کی شکل میں نکلا۔
540 مکانات مکمل تباہ
20 ارب روپے سے زائد کا نقصان
گلگت بلتستان میں17 اگست تک 35 اموات، جبکہ دیگر علاقوں میں 300 سے اوپر
شاہراہِ قراقرم اور جگلوٹ-سکردو روڈ کئی دن بند رہی
یہ مناظر صرف خبروں کی سرخیاں نہیں تھے، یہ انسانیت کی کمزوری کا اعتراف تھے۔ خاندان اپنے بچوں کو اٹھائے دوڑے، مگر پانی ان سے زیادہ تیز تھا۔ ان کی خاموشی آج بھی چیخ بن کر گونجتی ہے۔
یہ کوئی نیا واقعہ نہیں
پاکستان گزشتہ برسوں میں بار بار ایسی تباہی دیکھ چکا ہے۔
2024 میں فلیش فلڈز نے 384 جانیں لیں۔
2022 میں بدترین سیلاب نے پاکستان میں 1,760 افراد کو نگل لیا اور 40 ارب ڈالر کا نقصان کیا۔
یہ سب واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ یہ محض بارش نہیں بلکہ ہمارے رویوں، حکومتی غفلت اور عالمی ماحولیاتی ناانصافی کا نتیجہ ہیں۔
وجوہات — صرف بارش نہیں
مقامی غفلت: دریا کے کنارے غیر قانونی تعمیرات، ندی نالوں میں کچرا پھینکنا اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی۔
غیر سائنسی انفراسٹرکچر: پل اور سڑکیں اس طرح تعمیر کہ پانی کا قدرتی بہاؤ رُک جائے۔
عالمی ناانصافی: پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ صرف 1 فیصد ہے، مگر امیر ممالک (امریکا، چین، یورپ) کی آلودگی ہمارے گلیشیئرز کو پگھلا رہی ہے۔
حکومتی ناکامی: قوانین موجود ہیں مگر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ سائنسدانوں کی وارننگ رپورٹس فائلوں میں دب کر رہ جاتی ہیں۔
کیا کرنا ہوگا؟
یہ وقت صرف امدادی اعلانات یا شجرکاری مہمات کا نہیں، بلکہ سنجیدہ فیصلوں کا ہے۔
مقامی سطح پر: خطرناک علاقوں سے آبادی کی منتقلی، غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ، اور کمیونٹی کی ٹریننگ۔
قومی سطح پر: ایک مستقل Flood Resilience Program جس میں سائنسدان، انجینئر اور مقامی کمیونٹیز شامل ہوں۔
عالمی سطح پر: پاکستان کو اقوام متحدہ اور دیگر فورمز پر یہ آواز بلند کرنا ہوگی کہ دنیا کی آلودگی کا بوجھ ہم اکیلے نہیں اٹھا سکتے۔ امیر ممالک کو فنڈز اور ٹیکنالوجی دینا ہوں گے۔
قانونی سطح پر: ماحولیاتی وکلاء (Environmental Lawyers) کا کردار بھی اہم ہے۔ وہ ایسے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنا سکتے ہیں جو غیر قانونی تعمیرات، آلودگی اور جنگلات کی کٹائی کو روکتے ہیں۔ عدالتوں میں ماحولیاتی مقدمات اٹھانا، متاثرہ کمیونٹیز کو قانونی تحفظ دینا، اور حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا صرف سیاسی نہیں بلکہ قانونی جنگ بھی ہے۔ جب تک عدالتوں میں ماحولیاتی انصاف کی آواز نہیں پہنچتی، قوانین صرف کاغذوں تک محدود رہیں گے۔
جدید سائنس — نجات کا راستہ
GIS میپنگ: ہر دریا اور گلیشیئر کا تفصیلی نقشہ تاکہ خطرناک زونز بروقت معلوم ہوں۔
Artificial Intelligence: سیلابی ریلوں کی شدت اور راستے کی پیش گوئی۔
Remote Sensing & Satellites: برفانی جھیلوں کی ریئل ٹائم نگرانی۔
Climate Smart Infrastructure: ایسے پل اور سڑکیں جو پانی کے دباؤ کو برداشت کر سکیں۔
Community Warning Systems: گاؤں گاؤں سائرن اور موبائل الرٹس۔
یہ اقدامات سستی یا دکھاوے کے نہیں، بقا کے ہیں۔
اختتامی پیغام
گلگت بلتستان کے سیلاب صرف ایک خطے کی تباہی نہیں بلکہ انسانیت کے لیے وارننگ ہیں۔ یہ قدرت کی چیخ اور حکومت کی خاموشی کا سنگم ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی سائنس کو نہ اپنایا، قوانین پر عمل نہ کیا اور دنیا کو اپنی ذمہ داری یاد نہ دلائی تو آنے والا وقت صرف گھروں کو نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کو بہا لے جائے گا۔
فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے:
کیا ہم تماشائی رہیں گے یا تاریخ ہمیں یاد رکھے گی کہ ہم نے وقت پر قدم اٹھایا؟