گلگت میں آئس کا بڑھتا زہر اور ہماری زمہ داری

گلگت، جو کبھی امن، سکون اور سیاحت کے باعث پہچانا جاتا تھا، آج ایک نئے اور خطرناک بحران کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بحران آئس جیسا زہریلا نشہ ہے، جو نوجوان نسل کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا ہے۔ وہ نسل جسے ملک و قوم کا مستقبل سنوارنا تھا، آج تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ آئس کا نشہ نہ صرف فرد کی زندگی اجاڑ دیتا ہے بلکہ پورے معاشرے میں جرائم، خوف اور بدامنی کو جنم دیتا ہے۔
اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دن دہاڑے اسکول کے بچے سکول سے بھاگ کر نالوں اور دریاؤں کے کناروں پر نشہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ والدین نہ تو یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بچے کہاں جاتے ہیں اور نہ ہی یہ پرواہ کہ وہ کس صحبت میں وقت گزار رہے ہیں۔ یہی غفلت نئی نسل کو تباہی کی کھائی میں دھکیل رہی ہے۔
گلگت کی گلیوں اور محلوں میں آئس کا استعمال تیزی سے عام ہو رہا ہے۔ نوجوان اس کے زیرِ اثر چوری، ڈکیتی اور حتیٰ کہ قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ معاشرے کے لیے زیادہ خطرناک کون ہے—آئس کے عادی نوجوان یا آوارہ کتے؟ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی انسانی جان اور امنِ عامہ کے لیے مستقل خطرہ ہیں۔
چند روز قبل سکارکوی کونو داس کے رہائشی نوجوان کاشان کو دو افراد نے مبینہ طور پر قتل کر کے اس کی لاش دریا میں پھینک دی۔ یہ افسوسناک واقعہ اس بڑھتے ہوئے المیے کی عکاسی کرتا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ مجرم بھی آئس کے نشے کے عادی ہوں۔ اسی طرح کچھ دن پہلے بسین تھانہ کی حدود میں آئس کے نشئیوں نے ایک کیری ڈبے پر بلاوجہ فائرنگ کی۔ اگلے روز جب پولیس نے ریڈ کیا تو نشئیوں نے تھانہ بسین کے عملے پر بھی فائر کھول دیا، اور نتیجتاً کراس فائرنگ ہوئی۔ یہ سب واقعات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ آئس صرف ایک نشہ نہیں بلکہ پورے علاقے کے امن و سکون کے لیے ایک کھلا چیلنج بن چکا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ ذمہ داری صرف حکومت پر عائد ہوتی ہے یا والدین پر بھی؟ حقیقت یہ ہے کہ والدین کی غفلت نوجوانوں کو غلط راستوں پر لے جاتی ہے۔ بچے کہاں جا رہے ہیں، کس کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، کب گھر سے نکلتے ہیں اور کب واپس آتے ہیں—یہ سب وہ پہلو ہیں جنہیں اکثر والدین نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہی لاپرواہی نوجوانوں کو ایسی صحبت میں دھکیل دیتی ہے جہاں وہ نشے کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ حکومت اور ادارے جرم کے بعد حرکت میں آتے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عموماً نشہ بیچنے یا جرم سرزد ہونے کے بعد کارروائی کرتے ہیں، لیکن والدین کے پاس یہ اختیار اور موقع ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ابتداء ہی میں اس دلدل میں گرنے سے روک سکیں۔ اگر والدین بروقت اپنی ذمہ داری نبھائیں، بچوں کی نگرانی کریں اور انہیں اچھی صحبت فراہم کریں تو نوجوانوں کو تباہی کے اس راستے سے بچایا جا سکتا ہے۔
محض ذمہ داریوں کے تعین میں الجھے رہنے کے بجائے ہمیں بطور معاشرہ اور بطور والدین اپنی عملی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی اورعدلیہ کو ایسے جرائم پیشہ افراد کو نشان عبرت بنانا ہوگا ورنہ یہ زہر ہماری آنے والی نسلوں کو پوری طرح نگل جائے گا