کالمز

کیا گلگت کا آخری بدھ مت حکمران شری بدت واقعی آدم خور تھا؟

تحریر۔ اشفاق احمد ایڈووکیٹ

شری بدت گلگت بلتستان کی قدیم ریاست بلور کا آخری مقامی بدھ مت بادشاہ تھا۔ عام طور پر اس کو آدم خور بادشاہ بھی کہا جاتا ہے ان کا اصلی نام چندر شری دیوا وکرمادتیہ تھا- جس کا دور حکومت تقریبا 13 سو سال قبل کا ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود شری بدت کی کہانی آج بھی گلگت بلتستان کے اجتماعی حافظہ میں زندہ ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شری بدت ایک کرشماتی شخصیت کا مالک تھا جس سے آدم خور بنا کر پیش کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے نوآبادیاتی دور میں کارگاہ بدھا کو بھی یچھنی / یعنی بدروح اور ایک آدم خور جن کے طور پر پیش کیا گیا ہےحالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چٹان پر بدھا کا مجسمہ بنایا گیا ہے جس کا بدروح ہونے یا آدم خوری سے کوئی تعلق نہیں۔
گلگت کے لیجنڈ حکمران شری بدت کی کہانی کے متعلق گلگت بلتستان میں مختلف طرح کی روایات پائی جاتی ہیں جنھیں زیادہ تر مغربی محقیقن اور مہم جوؤں نے اپنی کتابوں میں اپنے نقطہ نظر کے مطابق درج کیا ہے۔ ان میں ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر، کیپٹن ایچ سی مارش ,جان کلارک , میجر جان بڈولف,کرنل ریجینالڈ شمبرگ,کرنل ڈیوڈ لوریمر,افسر ایچ ایل ہیٹن اور کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے شری بدت پر PhD کرنے والے سکالر John Mock کے علاوہ منشی غلام محمد اور پروفیسر احمد حسن دانی بھی شامل ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ گلگت کے لیجنڈ بادشاہ شری بدت کا دور حکومت 749 صدی عیسوی کا ہے۔ وہ یہاں کا ایک مقامی حکمران تھا۔ اس کی حکومت ہنزہ نگر چلاس داریل, ہراموش, استور گریز, پونیال , یاسین غذر اور چترال تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں کئی علاقوں پر مختلف گورنرز حکومت کرتے تھے۔
بقول پروفیسر احمد حسن دانی گلگت کے حکمران کی آخری معلوم تاریخ نوشتہ جات کے مطابق 749 صدی عیسوی ہے جس کی تصدیق ہنزہ راک شلالیھ ( ہنزہ کے مقدس چٹانوں ہلڈکوش) کے نوشتہ سے ہوتی ہے-

ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر ، پہلا یورپی لکھاری تھا جس نے 1866میں شری بدت کی کہانی ریکارڈ کیا تھا، انہوں نے 1877 میں "تاریخی افسانوی تاریخ برائے گلگت” کے نام سے اسے شائع کیا ۔

ڈاکٹر لیٹنر اپنی کتاب دردستان کے صفحہ نمبر 9 تا 16 میں شری بدت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مقامی روایات کے مطابق شری بدت بری روحوں کی اولاد تھا۔
انہوں نے اپنی کتاب دردستان میں اس قاتل شہزادہ کا نام آذر جمشید کے بجائے آذر شمشیر لکھا ہے جس نے شری بدت کی بیٹی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اس کے ذریعے شری بدت کی لافانی زندگی کا راز معلوم کیا کہ اس کی” روح برف کی ہے” اور اس کی زندگی صرف آگ سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔
روایت ہے کہ شری بدت گلگت میں ایک محل میں مقیم تھا ،اس کے ذوق موزوں تھے -اس کے محل کے سامنے ساتھ ایک پولو گراونڈ تھا اور وہ پولو کھیل کا دلدادہ تھا مگر اس کے ہر عمل سے اس کی منحرف شخصیت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کا ملک زرخیز تھا- دارالحکومت کے چاروں طرف دلکش اور پرکشش باغات تھے۔ مگر وہ بادشاہ آدم خور تھا اس آدم خوری کی ابتدا ایک حادثہ کی وجہ سے ہوئی تھی.
کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی رعایا سے روزانہ خراج میں ایک بھیڑ لینے کی عادت تھی۔ ایک دن ، جب وہ کھانا کھا رہا تھا ، اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ گوشت پہلے سے زیادہ لذیذ تھا۔ اس نے اپنے کولن (باورچی خانے کے دروغہ) کو حکم دیا کہ بھیڑیں کہاں سے لائی گئیں۔ چھان بین کے بعد اس کے دروغہ نے بتایا کہ اسے یہ بھیڑ گلگت میں برمس گاؤں کی ایک عورت سے ملی ہے۔ بادشاہ نے اس عورت کو شاہی دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ وہ عورت جو اچانک اس بلاوۓ کی وجہ نہیں جانتی تھی بادشاہ کے کے سامنے لاۓ جانے سے وہ بہت خوفزدہ تھی ، جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب وہ دربار پہنچی تو وہ شری بدت کے سوالات سن کر پرسکون ہوگئی اور خوشی سے جواب دیا: "اے گلگت کے عظیم بادشاہ ، تجھ پر سلامتی رہے!
میرا بچہ اور یہ بھیڑ ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے میرا بچہ پیدائش کے کچھ دن بعد وفات پا گیا تھا اور
اس بھیڑ کی ماں اس کے پیدائش کےکچھ ہی دن بعد فوت ہوگئی تھی۔ پیدائشی طور پر بھیڑ کے بہت خوبصورت ہونے کی وجہ سے میں نے ان کی بہت تعریف کی تھی۔ بھیڑ کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے بیٹے ایوے کو بھی کھویا تھا چنانچہ میں نے اپنا غم مٹانے کے لئے اس بھیڑ کے بچے کو اپنا ہی دودھ پلایا جب تک کہ وہ چر نہ سکے ، کچھ دن پہلے اسی بھیڑ کے بچے کو آپ کی عظمت کے سامنے پیش کیا گیا۔ ” یہ کہانی سن کر شری بدت بہت خوش ہوئے ، اور خاتون کو بڑا انعام دیا اور اسے واپس جانے دیا۔
تنہا بیٹھے ہوئے ، اس نے گوشت کی چکھنے کی وجہ پر سوچنا شروع کیا۔
اس نے استدلال کیا کہ جب ایک بھیڑ کے گوشت جس نے تھوڑی دیر کے لئے صرف انسانی دودھ پی لیا ہو ، اس کا ذائقہ اتنا عمدہ ہوتا ہے ، تو انسان کا گوشت جو ہمیشہ ہی انسانی دودھ سے پرورش پاتا ہے یہ جانور کے گوشت سے بہتر ہوگا۔ اس نتیجے پر پہنچ کر ، انہوں نے یہ احکامات دیئے کہ بھیڑوں کے بجائے مستقبل میں انسانی بچوں کا ٹیکس عائد کیا جائے ، اور ان کے گوشت کو ہمیشہ اس کے رات کے کھانے میں پیش کیا جائے۔ اس طرح وہ انسانی گوشت کھانے لگا.”
جب یہ ظالمانہ حکم صادر کیا گیا تو اس سے ملک کے لوگ اس طرح کی حالت پر مایوس ہوگئے ، اور قربانی دے کر اس میں بہتری لانے کی کوشش کی ، بادشاہ کی حکم کی تعمیل میں پہل پہلے تو یتیموں اور پڑوسی قبائل کے بچے اس کے خوراک بن گئے ! اہستہ اہستہ سب کی باری آنے لگی اور جلد ہی یہ ظلم گلگت کے بہت سے خاندانوں نے محسوس کی ، جو اپنے بچوں کو ذبح کرنے کے لئے ترک کرنے پر مجبور ہوۓ تھے اور عوام اس کے ظلم سے سخت ناخوش تھے-
مقامی لوگ اس بادشاہ کے خلاف کچھ اثر نہیں ڈال سکتے تھے چونکہ اس کو جادوئی امداد حاصل تھی. آخر کار ان کے لیے پہاڑ کی چوٹی سے امداد ائی جس پر چڑھنے میں ایک دن لگتا ہے ، اور یہ امداد دریا کے کنارے گلگت کے نیچے ، دیور(دنیور) نامی گاؤں کے اوپر پہاڈ پر نمودار ہوئی ، جس میں تین شخصیات نظر آئیں۔ وہ مردوں کی طرح نظر آتے تھے ، لیکن زیادہ مضبوط اور خوبصورت تھے۔ انہوں نے اپنے بازوؤں میں دخش اور تیر اٹھائے ہوئے تھے وہ تینوں پری زاد تھے.
بقول ڈاکٹر لیٹنر آذر شمشیر نے شری بدت کی بیٹی کو بتایا کہ وہ ایک پری زات ہے یہ سن کر وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور اپنے باپ کی لافانی زندگی کا راز آذر شمشیر کو بتایا-
یہ راز معلوم کرنے کے بعد اس نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی اور محل پر آگ لگا دی جس سے شری بدت کا خاتمہ ہوگیا اور قاتل شہزادہ نے شری بدت کی بیٹی سے شادی کرکے خود گلگت کا حکمران بن گیا ۔ اس کہانی میں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ شری بدت کی بیٹی کا کا نام بدل کر نور بخت رکھا گیا ہے غالبا یہ اس خطے میں اسلام کی آمد کے بعد ہوا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ لیٹنر نے شری بدت کے افسانہ کو حقیقت اور افسانے کا ایک مرکب سمجھا ہے ، جس کا ثبوت ان کے عنوان اور "تاریخی” اور "خالصتا ادبی” نقطہ نظر دونوں کے حوالہ سے ہے۔ پھر بھی یہ ایک تاریخی نقط نظر ہے جس نے لیٹنر کے بعد آنے والوں کی توجہ مبذول کرائی۔

دوسری طرف گلگت میں برٹش پولیٹیکل آفس کے چیف کلرک منشی غلام محمد نے تاریخی شناخت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے شری بدت کی کہانی کا ایک ورژن "تاریخی لوک داستان گلگت بلتستان” کے نام سے شائع کیا ہے۔ وہ شری بدت کے متعلق ایک دلچسپ اور سادہ کہانی پیش کرتا ہے جس کے مطابق شری بدت کا قلعہ گلگت پولو گراؤنڈ سے تقریبا 200 گز مشرق میں واقع تھا۔ روایت کے مطابق شری بدت کی بیٹی اور اس کے وزیر نے آذر جمشید نامی ایک شخص کے ساتھ مل کر اس سے مارنے کی سازش کی چونکہ جادوئی طاقت کی وجہ سے شری بدت کی زندگی کا راز کسی کو نہیں معلوم تھا اور وہ ناقابل شکست اور لافانی تھا لیکن آذر جمشید کی محبت میں گرفتار ہو کے اس کی بیٹی نے باپ کی لافانی زندگی کا راز اپنے آشنا آذر جمشد کو بتایا دیا کہ اس کا باپ صرف آگ سے ہی مر سکتا ہے۔ چنانچہ آزر جمشید نے مقامی لوگوں کو شری بدت کے خلاف اکسایا اور منصوبہ بندی کرکے شری بدت کے محل کے چاروں اطراف آگ لگا دی تاکہ اس کی موت واقع ہو۔
دریا گلگت پل روڑ کے قریب واقع ایگورتھم بولڈر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں شری بدت نے ایک لوہے کا قلعہ بنوایا تھا۔ ایک روایت کے مطابق اس سازش کا پتہ چلنے پر اس نے اپنی بیٹی Miyokhay (مایوکی )کو لوہے کے اس قلعے میں قید کردیا تھا جو اس نے ان پتھروں پر بنایا تھا جو آج بھی دریائے گلگت کے وسط میں نظر آتے ہیں ، کیوں کہ اس نے آذر جمشید کے ساتھ مل ملاپ سے اس کی حکومت گرانے کے لئے سازش کی تھی۔ یہ بولڈر آج بھی مقامی طور پر اگورتھم گیری (پتھر) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور شری بدات کو اگورتھم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ہنزہ کی مقامی بولی بروشسکی میں تھم بادشاہ کو کہا جاتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق اپنی سازشی بیٹی کو سزا دینے کے لئے وقت نہیں تھا، اس لئے شری بدت نے جب دیکھا کہ اس کے محل کے چاروں اطراف آگ لگی ہے تو وہ اس سازش کو سمجھ گیا اور فورا گھوڑے پر سوار ہوا اور قلعے کی دیواروں سے باہر کود پڑا اور وادی اشکومن میں واقع چھٹورکھنڈ کی طرف ہوا میں اڑتا ہوا گیا چونکہ وہ جادوئی طاقت کا حامل ایک دیومالائی مخلوق تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اس نے یش پور نامی گاؤں (گلگت سے 12 میل مغرب کے قریب ویران گاؤں) میں رک کر آرام کیا ، جہاں اس نے کسی شخص سے درخواست کی کہ وہ اس کے لیے ایک گلاس ٹھنڈا پانی لے کر آئیں ۔ اس وقت
یش پور گاؤں میں انگور کی بھرپور پیداوار ہوتی تھی ، اور وہاں کے باشندے ان سے شراب بناتے تھے۔ اس لئے اس شخص نے شری بدت کو پانی کے بجائے شراب کا پیالہ پیش کیا ، جس پر شری بدت نے غصے سے یہ کہتے ہوئے پینے سےانکار کردیا کہ وہ آگ سے بچنے کے بعد وہاں آیا ہے جس نے اس کی جان کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ اس لئے اس سے شراب نہیں پانی کی طلب ہے۔
لیکن کسی نے بھی اسے پانی نہیں پلایا، اس گاؤں کے لوگوں کے سلوک سے سخت ناخوش ہونے کے بعد اس نے اس جگہ پر لعنت بھیج دی ۔ یہ گاؤں بالکل تباہ و برباد ہوجائے گا تاکہ دوبارہ وہاں انگور پیدا نہ ہوں۔ روایت کے مطابق اگلے سال یہ ہوا کہ گلیشیر جس سے گاؤں کے لئے پانی کی فراہمی ہوتی تھی وہ پگھل گیا اور اس کے بعد وہ گاؤں ہمیشہ کے لئے تباہ ہوا، اور آج بھی ایک کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔
کہا جاتا ہے یش پور گاؤں سے شری بدت وادی اشکومن کے گاؤں چٹورکھنڈ گئے اور خود کو وہاں ایک بڑے گلیشیر کے نیچے چھپا لیا ، بقول منشی غلام محمد لوگ کا ماننا ہے کہ ان کا ٹھکانہ آج بھی وہاں موجود ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چھٹورکھنڈ میں بلکہ پورے غذر میں میرزہ کچٹ نامی ایک اور دیومالائی مخلوق / جن کے متعلق بہت سی کہانیاں مشہور ہیں، لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ شری بدت کا کریکٹر کو بعدازاں میرزہ کچٹ نامی جن کے روپ میں سادہ لوح عوام کو نفسیاتی طور پر ڈرانے کے لیے تخلیق کیا گیا ہو۔ لیکن اس نقط پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کہانی کا کیا پس منظر ہے۔
بہرحال بقول غلام محمد ” لوگوں کا پختہ یقین ہے کہ شری بدت ایک دن گلگت میں دوبارہ حاضر ہوں گے اور وہ ان پر دوبارہ حکمرانی کی تجدید کریں گے۔ان کی بادشاہی دوبارہ بحال ہونے کے ڈر کی وجہ سے لوگ ہر سال نومبر میں شری بدت کی حکومت کے خاتمے کی سالگرہ پوری رات اپنے گھروں میں آگ جلا کے جاگتے رہتے ہیں اور وہ اس کے عادی ہوۓ ہیں تاکہ اگر وہ واپس آیا تو وہ خود کو اس کے بھوت سے محفوط رکھیں۔

اس رات کوئی بھی شخص سونے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ آگ پر رقص اور گانے گاتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔

بقول منشی غلام محمد دلچسپ بات یہ ہے کہ شری بدت کے باورچی خانے کے ملازم کا ایک خاندان گلگت میں رہائش پذیر ہے اور یہ واحد خاندان ہے جو شری بدت کے خیر خواہ ہے جو اس تقریب میں حصہ نہیں لیتے ہیں کیوں کہ وہ اب بھی اپنے آقا کے ساتھ وفادار ہیں، اور ان کو یقین ہے کہ ایک دن وہ خود ہی لوٹ آئے گا”
نوآبادیاتی دور حکومت میں ہر اس بات کو فراموش کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی جو اس خطے کے عوام میں باہمی ہم آہنگی اور اتحاد میں شدید دلچسپی اور محبت محسوس کرا سکتی تھی اس لئے مقامی افسانوں میں بھی مقامی حکمرانوں کو شیطان کی روپ میں پیش کیا گیا اور بیرونی حملہ آوروں اور قاتلوں کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا جو کہ نوآبادیاتی سوچ اور کردار کی عکاسی کرتی ہے اس لئے گلگت بلتستان کی نئی نسل کو نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی تاریخ کو تنقیدی نقط نظر سے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ بیرونی استبدادی دور میں گلگت بلتستان کی تاریخ غلامی کے اندھیروں میں گم ہو گئی ہے، لیکن پھر بھی کچھ قدیم تاریخ نہ صرف اساطیری کہانیوں کی شکل میں موجود ہے بلکہ خوش قسمتی سے اس خطے کے متعلق Rock Curving کی شکل میں ایک تاریخ موجود ہے ، گلگت بلتستان میں پچاس ہزار سے زائد تصویریں / نقوش موجود ہیں جو پہاڑی چٹانوں پر بنائی گئی ایک عمدہ تصویری گلیری کی شکل میں موجود ہے۔
اس طرح گلگت کے قریبی قدیمی گاوں نپورہ سے ملنے والے قدیم مخطوطے/ گلگت لائبریری میں بھی یہاں کی قدیم تہذیب کا پتہ چلتا ہے اور قدیم دور کے پٹولا شاہی یا بلور شاہی بادشاہوں کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں۔

کرنل شمبرگ کے بقول” شری بدت آخری حکمران (گلگت) نے ہندو ہونے کا اعزاز شری بدت کے نام سے حاصل کیا تھا وہ ایک حقیقی شخص تھا لیکن اپنی نام نہاد نسبت بندی کی وجہ سے وہ افسانوی بن گیا ہے”۔

گلگت میں مقیم برطانوی پولیٹیکل ایجنٹوں کے جانشینوں میں پہلا شخص میجر جان بڈولف
تھا ، جس نے اپنی کتاب ہندو کش کے قبائل,میں زور دے کر کہا ہے کہ
"شری بدت کے سپرد کردہ مافوق الفطرت صفات کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ہے کہ شری بدت ایک حقیقی شخصیت تھے۔
شری کی اصطلاح کے بارے میں بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندو شہزادوں کو بھی عزت کے طور پر شری کا لقب دیا جاتا ہے”.
شری بدت نام کی نسبت سے کچھ محققین کا خیال ہے کہ شری بدت ہندو تھا لیکن یہ دلیل جدید زہن کو زیادہ قائل نہیں کرتی ہے.

بقول کارل جٹیمار 4th صدی عیسوی کے دوران اس خطے میں بڑی تعداد میں بودھی خانقاہوں اور سٹوپاز تعمیر کئے گئے۔اور اہستہ اہستہ گلگت بدھ مت کی ایک اہم نشست بن گیا۔ اس وقت گلگت بلتستان کے بلور حکمران بدھ مت کے پیروکار تھے اور اس زمانے میں لوگ بھی بدھ مذہب کے ہی پیروکار تھے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس دور میں گلگت بدھ مت اور بدھ بھکشوؤں کا مرکز بن گیا تھا۔
نپورہ بسین گلگت میں واقع بدھا کا مجسمہ, ہنزل کا سٹوپا , گلگت کی قدیم بدھ مت لائبریری/ گلگت کے مخطوطے، بلتستان کا منتھل بدھا، سمیت گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بدھ مت کے انمٹ نشانات اور باقیات اس دلیل کی تصدیق کرتے ہیں۔
برٹش راج کے دوران گلگت ایجنسی میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹ میجر جان بڈولف اپنی کتاب” ہندوکش کے قبائل "کے صحفہ نمبر 134 میں ڈاکٹر Leitner کا حوالہ دیتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ "انہوں نے گلگت کے تاریخی لیجنڈ نامی کہانی میں شری بدت کے بارے میں لکھا ہے کہ مقامی طور پر شری بدت کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں جو زیادہ تر کہانیوں پر مشتمل ہیں لیکن سبھی تاریخی خاکوں میں تقریبا یکسانیت پائی جاتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان کہانیوں میں اپنی طرف سے مافوق الفطرف باتیں شامل کی گئی ہیں – شری بدت کی زات کے ساتھ منسوب مافوق الفطرف کہانیوں کے برعکس اس میں کوئی شک نہیں کہ شری بدت حقیقت میں ایک انسان تھا”.
انہوں نے شری بدت کی کہانی کو حقیقت اور افسانے کا امتزاج قرار دیا ہے۔
شری بدت سے منسوب آدم خوری کی قدیم کہانی کو ایک نئے انداز میں دیکھنا لازمی ہے چونکہ یہ صرف اساطیر سے بھری ہوئی ایک دلچسپ کہانی نہیں بلکہ درحقیقت یہ قدیم کہانیاں وہ نالیاں ہیں جن سے اس زمانے کا مجموعی شعور ہم تک آتا ہے جس میں وہ حقائق پنہاں ہو سکتے ہیں جن سے سینکڑوں سال قبل ہمارے آباؤ اجداد دوچار ہوۓ تھے –
مقامی روایت کے تحت بیان کی گئی اس کہانی کا جایزہ لیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے شری بدت اور آذر جمشید دونوں کو دیو مالائی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آذر جمشید کو پری زاد اور شری بدت کو بدروح اور آدم خور کہا گیا ہے جو حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتا ہے –
لیکن اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے چونکہ دنیا کی ہر تہذیب میں اساطیری یا دیومالائی قصے کہانیاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں جن میں انوکھی مخلوقات، پریاں اور دیوی دیوتا ہوتے ہیں –
دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں انسانی گوشت خوری کا رواج رہا ہے جس کی تصدیق کرتے ہوۓ مشہور فلسفی برٹرینڈرسل اپنی نوبل انعام یافتہ کتاب "فلسفہ مغرب کی تاریخ "میں لکھتے ہیں کہ ” تمام دنیا میں مذہبی ارتقاء کے خاص مرحلے پر مقدس حیوانوں اور انسانوں کی قربانیاں دی جاتی اور انہیں کھایا جاتا تھا – یہ مرحلہ مختلف جگہوں پر مختلف زمانوں میں رائج رہا- انسانوں کو کھانے کی نسبت انسانی قربانی زیادہ عرصہ تک قائم رہی، یونان میں تاریخی زمانوں کی ابتدا تک یہ رسم ختم نہیں ہوئی تھی -ان ظالمانہ پہلووں کے بغیر زرخیزی کی رسومات تمام یونان میں عام تھیں۔ دیوتا کو پوری طرح انسان مانا جاتا تھا البتہ وہ انسانوں سے اتنے مختلف ہیں کہ وہ غیر فانی اور فوق البشری قوتوں کے مالک ہیں”۔

گلگت بلتستان کی قدیم روایات میں شری بدت کو بھی ایک مافوق فطرت قوت کا مالک بتایا گیا ہے
کہ اس کی موت کا راز معلوم کئے بنا اس کو جان سے نہیں مارا جاسکتا ہے چونکہ وہ جادوئی طاقت کا حامل شخص تھا چنانچہ اس سے آدم خور اور بدی کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا، جس طرح کارگاہ بدھا کو بدروح اور آدم خور بنا کر پیش کیا گیا جبکہ شری بدت کے قاتل آذر جمشید کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا اور آج بھی ہمالیہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں آباد کچھ افراد خود کو اس کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کی پروفیسر صدف منشی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ہنزہ کے راجہ جمشید علی خان نے خود کو شری بدت کی بیٹی کے نسل سے ہونے کا ذکر کیا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ شری بدت کے کردار کو بدی کا پیکر کے طور پر پیش کرنے کے پیچھے مختلف سماجی معاشی اور سیاسی مقاصد پوشیدہ تھے جن پر نظر ڈالنے سے حقیقت کا کھوج لگانا آسان ہوتا ہے۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شری بدت واقعی ایک آدم خور تھا یا پھر بیرونی جارحیت کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے یہ محض اس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلایا گیا ایک زہریلا، نفرت انگیز اور جھوٹا پروپیگنڈہ تھا؟

اس اہم سوال پر اسکالرز میں دو طرح کی راۓ پائی جاتی ہے مثال کے طور پر شری بدت پر کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والے سکالر John Mock کے بقول ”گلگت کے آخری بدھ مت بادشاہ شری بدت کو آدم خور بنا کر پیش کرنے کا مقصد پرانے معاشرتی نظام کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا تھا تاکہ ماضی سے عوام کے تعلق کو توڑ کر نئے معاشرتی نظام کی توثیق اور قبولیت کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکے”۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے نامور دانشور عزیز علی داد اپنے تحقیقی مقالہ بعنوان Cannibalism In Gilgit میں شری بدت کے افسانے کے متعلق لکھتے ہیں کہ” سب سے زیادہ امکان یہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں یہاں قحط سالی پیدا ہوئی ہو ، جس نے لوگوں کو اپنی بقا کے لئے نربہ خوانی پر مجبور کیا ہو۔ ممکن ہے کہ قحط نے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کیا ہو ایک ایسی خانہ جنگی کی صورتحال جہاں ہر ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہو جس نے اس ریاست کو تباہ کردیا ہو۔
مشہور فلاسفر تھامس ہوبس اپنی شاہکار کتاب لیویتھن میں اس طرح کی صورتحال کے متعلق لکھتے ہیں کہ انسان کی فطری حالت جنگ اور تنازعات میں سے ایک ہے، جب تک کہ معاشرتی زندگی کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔
بقول تھامس ہوبس ” معاشرتی معاہدہ کا عہد ختم ہونے کے ساتھ ہی معاشرے کا ٹکراؤ ہوجائے گا اور پھر ہر آدمی ہوگا ہر ایک کے خلاف، اور اس کا نتیجہ لامحالہ ایک ایسی حالت جنگ کا ہوگا کہ "قانون کی حکمرانی کے بغیر ، انسان کی زندگی تنہائی ، غربت ، گندی ، سفاک اور مختصر ہوگی۔
شری بدت کا دور حکومت بلور ریاست کے ٹوٹنے کے صرف چار سال بعد یعنی 749 صدی عیسوی کی ہے یعنی یہ ایک جنگ سے تباہ حال معاشرے تھا ، ریاست بلور کی دستیاب تاریخ کے مطالعے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ درحقیقت گلگت کی وادیوں میں 740-747 صدی عیسوی میں لڑی گئی تبتی اور چینی جنگ کے نتیجے میں ریاست بلور ٹوٹ گئی تھی ، لیٹل بلور پر قبضہ کرنے کے لئے گلگت کی وادیوں میں تبت اور چین نے 747 صدی عیسوی میں ایک خونی جنگ لڑی جس میں تبت کو چین نے شکست دی –
گلگت کی وادیوں میں لڑی گئی اس تاریخی جنگ کے بارے میں Susan Whitfield نے اپنی کتاب
بعنوان Life Along the Silk Road میں دلچسپ حقائق بیان کئے ہیں.
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے شائع شدہ اس کتاب میں The Soldier’s Tale
SEG LHATON , 747–790
کے عنوان سے اس جنگ کے بارے میں وہ رقم طراز ہے کہ” سیگ لاتن تبت کے ان جنگی صفوں میں شامل تھے جنہوں نے چینی حملہ کا سامنا کیا تھا، وہ ایک اور دن اس جنگ کی کہانی یوں بیان کرتا ہے کہ "تبتیوں نے ان چھوٹی وادیوں کی سلطنتوں پر اپنا راج قائم کیا تھا جو ان راستوں کو کنٹرول کرتا ہے جو دریائے گلگت کے راستے سے شمالی ہندوستان کی طرف گامزن ہیں”۔
740 صدی عیسوی کی دہائی کے اوائل میں تبتی فوج کو کئی بار ان وادیوں میں چینی فوج کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیشہ تبتی فوج فاتح رہی مگر 747 صدی عیسوی کے موسم گرما میں وہ اتنے خوش قسمت نہیں تھے کہ انہیں فتح حاصل ہو۔
سیگ Lhaton کو یہ جنگ واضح طور پر یاد ہے کہ ان کی فوج نو ہزار افراد پر مشتمل تھی جو ان پہاڑوں کے اندر چین کے ساتھ برسر پیکار تھے”۔
گلگت کی وادیوں میں چین اور تبت کے درمیان لڑی جانے والی اس جنگ میں چین کے دس ہزار افواج کو جنرل Gao کمانڈ کر رہا تھا اور تبت کے نو ہزار زرہ بکتر بند افواج نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا یہ جنگ Little Balur میں لڑی گئی۔ لیکن 747 صدی عیسوی کے موسم بہار میں لڑی گئی اس لڑائی میں تبتی اتنے خوش نصیب نہیں ٹھہرے کہ انہیں کامیابی ملے، اس جنگ میں چین نے تبت کو شکست دیا تھا۔
( ریاست بلور کی اپنی ایک منفرد تاریخ ہے جس کے متعلق میرا مقالہ ریاست بلور کی گمشدہ تاریخ کے عنوان سے سر بلند نامی علمی مجلہ جلد اول میں شائع ہوا ہے اس علمی مجلہ کو ادارہ براۓ تعیلم و ترقی بحرین سوات نے شائع کیا ہے۔)
تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ ریاست بلور کا معاشی نظام اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا ہو اور ریاست قحط سالی کا شکار ہوئی ہو جس کے نتیجے میں معاشرہ فطری حالت جنگ کی لپیٹ میں آگیا ہو اور اندرونی خانہ جنگی نے معاشرے میں آدم خوری جیسے حالات پیدا کئے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ”۔ شنا زبان میں لڑائی جھگڑے کو” اکسے اک کھوک” کہتے ہیں۔ ممکن ہے بعد میں اس سے آدم خوری سے تعبیر کیا گیا ہو۔
عزیز علی داد کے نقط نظر کے مطابق بیرونی مسلط شدہ جنگ اور قحط سالی نے اندرونی خانہ جنگی کو جنم دیا ہو اور شری بدت کے ظالمانہ طرز حکمرانی کی وجہ سے ریاست اور معاشرے کی داخلی کمزوریوں نے ایک نئی ریاست کے لیے بنیاد مہیا کی ہو اور خارجی طاقتوں کو اپنے مفاد میں ان کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کیا ہو ، اور وہ معاشرہ اندرونی تنازعات اور سازشوں کے ذریعہ کرایہ پر دستیاب تھا چنانچہ شری بدت کی بیٹی اور اس کے وزیر نے اس کے قتل کی سازش میں اہم کردار ادا کیا۔
الغرض تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ شری بدت دراصل لیٹل بلور ریاست کا آخری مقامی بدھ مت حکمران تھا جس کا اصلی نام چندرا شری دیوا وکرما دیتہ تھا جس سے گلگت بلتستان کے مقامی لوگ شری بدت کے نام سے جانتے ہیں۔
شری بدت کا افسانہ دراصل بدھ مت دور کا افسانہ ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے اپنی طرف سے مافوق الفطرت باتیں شامل کی ہیں۔
گلگت بلتستان کے قدیم دور کے بادشاہوں میں صرف ان کا نام آج بھی گلگت بلتستان کے عوام کو یاد ہے لیکن بدقسمتی سے ایک منفی روپ میں، کیوں کہ نوآبادیاتی دور میں یہ کہانی یورپی لکھاریوں نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ریکارڈ کیا تھا جس میں مقامی حکمران کو آدم خور اور بدی کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا ہے، تاکہ بیرونی تسلط کو مقامی لوگ نجات دہندہ کے طور پر قبول کریں۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف فریبرگ کے پروفیسر آسکر وان ہنبر کے بقول 745 صدی عیسوی میں پھیلتی ہوئی تبت کی سلطنت نے ریاست بلور پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بلور ریاست ٹوٹ گئی۔
گلگت کی وادیوں میں 740-747 صدی عیسوی میں لڑی گئی تبت اور چین جنگ کے نتیجے میں یہاں کا معاشرہ فطری حالت جنگ کی لپیٹ میں آگیا تھا ، لہذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ریاست بلور ٹوٹنے کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک کامیاب سازش کے زریعے لیٹل بلور ( گلگت ) کے آخری مقامی حکمران شری بدت کو آدم خور قرار دیکر آبادی کو اس کے خلاف متنفر کرکے اپنے حق میں استعمال کیا گیا اور مقامی حکومت کا خاتمہ کیا۔جس کے ثمرات نسل در نسل ہم آج تک بھگت رہے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے لوگ گارگاہ بدھا کو بھی شری بدت کی طرح ایک آدم خور بدروح کے طور پر دیکھتے ہیں حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button