کالمز

گلگت بلتستان پیکیج ۔۔ماضی ،حال ،مستقبل

محمد طاہر رانا

سیلف ایمپاورمنٹ اینڈ گڈ گورننس آرڈر 2009 ء کی حیثیت اور حقیقت اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب وزیر اعلیٰ اوروفد میں شامل دیگر وزراء نے سابق صدرپاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کے دوران ان سے گورننس آرڈر میں ترمیم کا اختیار صوبائی اسمبلی کو منتقل کرنیکا مطالبہ کیا۔اور اعتراف کیا کہ نیم صوبائی سیٹ اپ عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔

2009ء میں جب پیپلز پارٹی کی اس وقت کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو پیکیج دیا اس دوران گلگت بلتستان کی موجودہ صوبائی حکومت نے پیکیج کی اصل روح کو اور اس میں موجود خامیوں کو سمجھنے کے بجائے” سرف ایکسل” کے اشتہار کی طرح پیکیج کی تعریف میں آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔گلگت بلتستان کے صحافیوں ،دانشوروں اور کالم نویسوں نے اس دوران اس پیکیج کو لولی پاپ قرار دیا اوراس کی حقیقت عوام کے سامنے واضح کر کے ثابت کر دیا کہ یہاں کے صحافی اور دانشورعوام کے وسیع ترمفاد اورانکے حقوق کی ترجمانی کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔وزیر اعلیٰ صاحب سے آج گلگت بلتستان کا ہر فرد یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ چار سالہ دور حکومت میں اس نام نہاد پیکیج کے ذریعے عوام کو اندھیرے میں کیوں رکھا ۔اور جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی اور صدر کے بھی آخری کچھ دن باقی رہ گئے تھے تب انہیں کیونکر پیکیج میں خامیاں نظر آنے لگیں؟ اس سے قبل انہوں نے اپنے درجنوں اخباری بیانات میں اس پیکیج کو پیپلز پارٹی کا کارنامہ اور گلگت بلتستان کے عوام کا حقیقی ترجمان قرار دے دیا تھا لیکن اچانک انہیں اس میں عدم خودمختاری کیسے نظر آگئی۔مانا کہ وفاق نے پیکیج کے ذریعے داخلی خودمختاری دی، جس کی وجہ سے نئے عہدے بھی مل گئے ،بیوروکریسی کی حکمرانی ختم ہوگئی ،کانا ڈویژن کے چنگل سے آزادی ملی ، تشخص بحال ہوااورنیم صوبائی طرز کا سیٹ اپ بھی ملا، اس کی خوبیوں پر تو سب نے غور کیا، کیا کسی نے اس کی خامیوں پر آواز اٹھائی۔آج جب اپنی جان پر بنی اورسیاسی مستقبل تاریک نظر آنے لگا تو آئینی اصلاحات اور ترمیم کا حق مانگا جا رہا ہے۔باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہیکہ صوبائی حکومت نے گورننس آرڈر میں ترمیم کے سلسلے جو ڈرافٹ سابق صدرکو پیش کرنے کا جو کارنامہ سر انجام دیا اس ڈرافٹ کو وفاق میں جنرل الیکشن ہونے سے قبل سیاسی پنڈتوں نے ماہرین کی ایک فوج کے ذریعے تیار کیا تھا جسے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی صدر کے سامنے پیش کیا جانا تھا لیکن اسلام آباد میں کئی عرصے تک چلے کاٹنے کے باوجود شہنوائی نہیں ہو سکی۔خیر کیسے ہوتی صوبائی حکومت نے اپنی حیثیت گزشتہ چار سالوں میں اپنے ہاتھوں سے ہی جو گنوا دی تھی۔گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی نہیں، وفاقی وزیر کے زیر سرپرستی نیم صوبائی طرز حکمرانی ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔جب پروٹوکول کی بات آتی ہے تو یہاں کے وزراء اپنے آپ کو پنجاب کے وزراء کا ہم پلہ سمجھتے ہیں ،لیکن قومی میڈیا سمیت ہر فورم میں آج بھی پاکستان کے چار صوبوں کا ہی ذکر ملتا ہے،پانچواں صوبہ تو آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے،اور واضح اور حقیقی خودمختاری نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ عوام میں احساس محرومی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

عجیب ستم ظریفی ہے اب بھی ہم حقائق سے منہ چھپاتے پھر رہیں ہیں، اور جب حقائق سامنے لائے جاتے ہیں تو ان پر غور کرنے کے بجائے اسے تنقید سمجھا جاتا ہے ،اسے ہماری بدقسمتی کہیں یا تاریخ کا ایک کڑوا سچ ۔۔۔اقوام متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے جسے مسئلہ کشمیر کے ساتھ لف کیا گیا ہے،لہذا جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتاہے گلگت بلتستان کے عوام کو اسی طرح کے سیٹ اپ کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالنی ہوگی لیکن اس میں تمام پارٹیز کی مشاورت سے ترمیم کے ذریعے قابل قبول آئینی اصلاحات لائے جاسکتے ہیں۔ زرداری صاحب تو صوبائی حکومت کی طرف سے پیش کئے جانے والے مسودے پر عملدرآمد کئے بنا ہی رخصت ہو گئے اب فیصلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کو کرنا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو کس طرح کی خودمختاری دیتی ہے۔کونسل اور اسمبلی کو با اختیار بنانے کیلئے پاکستان مسلم لیگ(ن) کو ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاہم اس بار کسی بھی قسم کے آئینی اصلاحات سے قبل گلگت بلتستان کے تمام سٹیک ہولڈرز اور پارٹیز کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے تاکہ گلگت بلتستان کی محب وطن عوام کے محرومیوں کا ازالہ ممکن ہو سکے۔ گلگت بلتستان کے مشہور شاعر جمشید خان دکھی نے اپنی شاعری میں خطہ بے آئین کی محرومیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہیکہ۔۔۔

امیر شہر سے کہہ دو مجھے آئین دے ورنہ

کسی دن لیکے ڈوبینگی ،میری محرومیاں اس کو

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button