کالمز

چراغ تلے اندھیرا

از قلم:ایم غازی خان ایڈوکیٹ استوری

عوام کو آج تک یہ سمجھ نہیں کہ ان کو کس قسم کی جمہوری حکومت منتخب کرنی چاہیے جو ان کی معیارزندگی کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور بہترین بنا سکے جبکہ جمہوری حکومتیں عوام ہی کی بدولت بنتی ہیں۔لیکن عوام کی منشاء و مرضی کے مطابق چلتی نہیں ۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے اقتدار میں آنے والی حکومتوں کو گرانے کے لئے کچھ مخصوص لابیاں سر گرم عمل رہتی ہیں۔ ان کے پاس عوامی ایشوز کم دیگر ایجنڈے زیادہ ہوتے ہیںیا تو یہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے عوام کے نام پرکچھ بھی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔حالانکہ یہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو عوام کے معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے کچھ نہیں کرتے جو منشور عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے تشہیر کرتے ہیں اس پر عمل بھی نہیں کرتے۔دراصل حقیقت میں یہ لوگ باری باری اقتدار پر قابض ہو کر ہمیشہ عوام کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔عوام کے معیار زندگی کو قصداً بہتر نہیں بناتے تا کہ عوام میں محرومیاں بد ستور رہیں گی تو عوام کو جھوٹے آسرے دے کر با آسانی اقتدار حاصل کرتے رہیں گے۔ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کبھی یہ آمریت کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔ کبھی ڈکٹیٹروں کے ساتھ مل کر حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام اور عوام کے خیر خواہ بنتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً یہی لابیاں یا گروپس ، جمہوریت کا قیمہ بناتے آرہے ہیں۔
موجودہ حکومت ہو یا سابقہ حکومتیں ہوں عوام کو دیے گئے منشور پر من و عن عمل نہیں کیا ہے صرف دعوے اور بیانات سے کبھی بھی عوام کی میعار زندگی یا سٹیٹس میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ عوام کی محرومیاں بدستور ہیں، مہنگائی بدستور ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے،یہ ضرور ہے کہ امن و آمان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت بالخصوص پاک افواج اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے یہ پاک فوج کی عوام میں بہت پزیرائی ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں سے بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کا وقار بہت بلند ہوا ہے اور عوام جب کبھی مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں وہاں پاک فوج ہی سہارا بنتی ہے۔سیاسی اکابرین صرف اقتدار کی نوراکشی میں لگے رہتے ہیں۔کبھی الیکشن دھاندلی ، کبھی الیکشن کمیشن کی تبدیلی، کبھی پانامہ لیکس ، کبھی وزیر اعظم کی تبدیلی کبھی حکومت کی نا اہلی وغیرہ وغیرہ۔
آخر کب تک یہ سیاسی اکابرین عوام پر ظلم کرتے رہینگے۔ کب تک عوام روتے اور دھرنے، مرچ کرتے اور مرتے رہینگے۔کب یہ پارلیمنٹ عوامی پارلیمنٹ بنے گی۔اخر یہ تمام سیاسی جماعتیں یا سیاسی اکابرین و دانشور مل بیٹھ کر کامیاب ملکوں کے جمہوری نظام کی طرح بہتر نظام کیوں تشکیل نہیں دیتے۔ پارلیمنٹ میں بہتر قانونی اصلاحات کیوں نہیں ترتیب و عمل کرتے۔ الیکشن ٹرانسپرنسی اور بد انتظامی کی روک تھام، ہر قسم کےLoopholes کو دور کرنے کیلئے آئین سازی و قانون سازی کیوں کرتے۔عوام کی بے روزگاری دور دور کرنے کے لئے دھرنے کیوں نہیں دیتے؟ مہنگائی کم کرنے کے لئے دھرنے کیوں نہیں دیتے؟جو کام پارلیمنٹ میں کرنے کے ہیں وہاں کیوں نہیں آواز اُٹھاتے۔وہ آواز کیوں نہیں اٹھاتے جو عوامی مفاد میں ہوتی ہیں۔بین الاقومی سطح پر وطن عزیز کا وقار بلند کرنے اور بین الاقوامی جیسے (CPEC ) پایہ تکمیل کے لئے مل بیٹھ کر دیر پا پالیسیاں و منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے۔عوام کی محرومیاں دور کر کے انصاف و مساوات کا نظام کیوں نہیں دیتے۔
یہ صورت حال آج سے نہیں یہ بد قسمت قوم ہمیشہ سے اس دلدل میں دھنسی آرہی ہے۔قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عوام دوست پالییسیوں کے خلاف بھی یہ لابیاں سر گرم عمل رہی نہ صرف یہ بلکہ ہر جمہوری حکومت خواہ کسی بھی جماعت کی ہو یہ لابیاں ہمیشہ سے میڈیا اور لانگ مارچ ، دھرنے وغیرہ کی سیاست چمکانے اور اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرنے کے لئے ہربے استعمال کرتے آئے ہیں۔حالانکہ سیاسی جماعتیں و اکابرین سیاست آمریت کو موردالزام ٹھراتے آئے ہیں حالانکہ یہ جمہوریت کا قیمہ بنانے کے از خود ذمہ دار ہوتے ہیں اور پھر آمریت کے بھی حصہ دار بنتے رہے ہیں۔موجودہ سیاسی جماعت مسلم لیگ ن بھی ماضی میں ایسے حربے استعمال کرتی رہی ہے لیکن اب اسے اقتدار کے پانچ سال پورے کر نے دینے چاہیے۔
پارلیمنٹ میں ملک و قوم کے مفاد میں آئین سازی و قانون سازی تمام جماعتوں سے مشاورت کر کے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔انا پرستی اور خود غرضی کو بچانے کی ضد نہیں کرنی چاہیے اور عوام کی محرومیاں و دیگر مسائل کو حل کرنے میں عملاً کردار ادا کرنا چاہیے۔بے روزگاری اور مہنگائی کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ مخصوص ایجنڈوں کی تکمیل اور مخصوص اسکیموں سے پوری قوم مستفید نہیں ہو سکتی۔پوری قوم کو یکساں میعار زندگی بہتر بنانے کے پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو تاحال کہی نظر نہیں آرہا۔عوامی محرومیاں حد سے بڑھ جائے تو پھر کنٹرول کرنا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔جسکا ادراک سب کو ہونا چاہیے۔
وہ میرے اقبال کا عزم کہاں ہے
وہ میرے قائد کا فرمان کہاں ہے
سیاست کے وہ اوصاف کہاں ہیں
جمہور کی وہ مثال کہاں ہے۔
عوام کی وہ میعار زندگی کہاں ہے
ٹوٹی پھوٹی قسمت تیری حستی ہے
تیرے رہبروں کے نام یہ عوامی چِھٹی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button