کونو داس، کانٹوں کا صحرا ؟
ہدایت الله اختر
کونوداس۔۔جی ہاں کانٹوں والا صحرا یہی اردو معانی بنتے ہیں شینا نام کی۔۔کہتے ہیں کہ پچھلے وقتوں میں یہاں کانٹے ہی کانٹے ہوا کرتے تھے اس لئے اس جگہ کا نام کونو داس پڑ گیا ۔۔کونو شینا میں کانٹے کو کہتے ہیں ۔۔۔۔آج کل کونودا س کی اہمیت کسی اور لحاظ ے بھی ہے ۔۔چیف کورٹ کا آفس اے جی پی آر بگروٹ ہاسٹل،عید گاہ،دار العلوم اور تبلیغی مرکز کنوداس کے دوسرے نام ہیں ۔۔۹جون ۲۰۱۳ تا ۱۱ جون ۲۰۱۳ کے ایام میرے زندگی کے بہترین ایام میں شمار ہیں ۔۔کونوداس کا تپتا ہوا میدان لاکھوں کا مجموعہ جدھر دیکھیں انسانوں کا ہجوم میں بھی اس ہجوم کا حصہ ہوں امیر غریب کا احساس نہیں وی آئی پی کا کوئی تصور نہیں میں نے وہاں بڑے بڑے عہدے والے بھی دیکھے، جس میں وزیر سکریٹریز،لیول کے لوگ ۔جس کو جہاں جگہ مل گئی وہاں چٹائی مین نہ دھوپ کا احساس نہ سایے کی تلاش۔۔بلکہ یون کہیں
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
کونوداس گلگت تبلیغی مرکز کے یہ تین دن گلگت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہینگے۔وہ اس لئے کہ اس اجتماع میں گلگت بلتستان کے سارے ضلعوں کے لوگوں کے علاوہ کوہستان اور ملک کے دیگر لوگوں نے بھی شرکت کی۔۔۔۔۔۔میرے دوستو کونوداس کا یہ تبلیغی اجتماع گلگت میں اپنی نوعیت کا ایک بے مثال اجتماع تھا ۔۔۔۔بے مثال اس لئے کہ اس تبلیغی اجتماع میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے تمام فرقوں نے شرکت کی ۔۔۔۔۔۔ذرا سنئے میں کونوداس میں ہوں میری یہ آنکھ کیا دیکھ رہی ہے ۔۔ارے میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔وہ دیکھو کریم بیگ چٹائی مین بیٹھا بڑے غور سے تقریر سن رہا ہے اس کے سات اس کے بہت سارے دوست بھی ہیں
ارے وہ دیکھیں امتیاز حسین کھومر والا دوسرے لوگوں کو پانی پلا رہا ہے ۔۔ارے شمشاد حسین بھی نظر آرہا ہے بڑے بے فکر اور کسی خوف کے بنا اپنے دوستوں سے گفتگو میں مصروف ہے حسین ولی ۔۔مہدی حسن۔نہیں میں خواب نہیں دیکھ رہا ہوں یہ حقیقت ہے ۱۰ جون کی رات کو راحت حسین الحسینی بھی اپنے وفد کے ساتھ آئے اور رات ساڑھے گیارہ بجے چلے گئے۔۔جی ہاں یہاں کسی کے ماتھے پہ نہین لکھا ہوا تھا یہ شیعہ ہے یہ سنی۔ نر بخشی ہے یا یہ اسماعیلہ ہے سب فرقوں کے لوگ ۔۔۔۔نہ جان کا خطرہ اور نہ کسی قسم کا ڈر ۔۔۔۔۔کس قدر حسین منظر تھا کنوداس کا ۔۔۔۔نہیں یار یہ کونوداس نہین یہ کانٹوں والا داس نہیں یہ تو پھولوں کا چمن ہے یہ تو وہ باغ ہے جس میں ہر رنگ کے پھول کھلے تھے ۔۔۔کیا کنوداس کو اب کونوداس کہنا چاہئے نہیں اسے اب کوئی اور نام سے پکارنا چاہئے ۔۔کیونکہ یہاں سے ایک مثبت سوچ کا آغاز ہوا ہے اور بھائی چارے کی فضا قائم ہونے میں مدد ملی ہے۔۔۔کیونکہ یہاں سے ہی ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، کیونکہ یہاں سے ہی جامع مسجد اور امامیہ مسجد کے درمیان فاصلے کم ہونے مین مدد ملی ہے۔۔۔۔آئو ہم سب مل کر گلگت بلتستان کے ہر گوشے میں کونوداس جیسے حسین مناظر کے مواقعے فراہم کریں تاکہ ہماری آنے والی نسل ہمیں اچھے انداز میں یاد کرے ۔۔۔اس گلزار میں ایسے بیج بوئیں کہ جس طرف ہم نظر اٹھائیں پھول ہی پھول ہوں اور کانٹوں کا نام و نشان نہ ہو۔۔آمین
acha likha h ajanab ny, nusratul islam ka hawala hota to acha tha