ترجمان وزارت امور کشمیر کی متنازعہ تحریر پر ایک تبصرہ
وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان میں گریڈ17 کے عہدے پر تعینات ایک سرکاری ملازم نے یہ انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف جاری عوامی ایکشن کمیٹی کے دھرنوں میں کچھ شر پسند عناصر شامل ہو چکے ہیں جن کا مقصد گندم سبسڈی نہیں بلکہ علاقے میں سیاسی بحران پیدا کرنا ہے.
بروز ہفتہ مقامی اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے آفیسر تعلقات عامہ جاوید شہزاد ملک نے لکھا ہے کہ مورخہ22اپریل 2014کو وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے مابین ہونے والے ملاقات کی روشنی میں گندم سبسڈی کے مسئلے کے حل کیلئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دیدی گئی تھی جس کا پہلا اجلاس 24 اپریل کو منعقد ہوا اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو گندم پر سبسڈی دی جائیگی تا ہم اس پرحق صرف عوام کو ہو گا نہ کہ فلور مل مافیا کا.
ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ گندم سبسڈی معاملے کو سیاسی مقاصد کیلئے طول دینے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائیگی انہوں نے ایک دلچسپ بات بھی لکھی ہے کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کے فیصلوں کی پابند ہے جن کی پاسداری کی جائیگی ۔
انہوں نے گلگت بلتستان میں گندم کی موجود صورتحال اور قیمتوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت گلگت بلتستان میں گندم 540 روپے فی من کے حساب سے دستیاب ہے مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے اور اس وقت علاقے میں 40 کلو گرام آٹے کا تھیلہ سرکاری سیل پوائنٹس پر 760 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے جو کہ مذکورہ آفیسر کی جھوٹ اور گمراہ کن تحریر کی عکاس ہے ۔
وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے ترجمان کے نام سے شائع ہونے والے اس مضمون کے ذریعے وزارت امور کشمیر نے اول تو عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کو شر پسند قرار دیکر ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت اور سماجی دشمن عناصر کے اشارے پر گلگت بلتستان کے عوام میں گندم سبسڈی کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تاریخی اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے اور عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ان شر پسندوں کی باتوں میں آکر ایکشن کمیٹی کے دھرنوں میں شرکت کرنے سے گریز کریں جبکہ دوسری جانب انہوں نے واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کے فیصلوں کی پابند ہے جن کی پاسداری کی جائیگی جس سے وفاقی حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے. یعنی ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے دور میں ہوا تھا اور اب مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت اس کے برعکس کوئی فیصلہ نہیں کریگی اور گندم کی قیمتوں میں اضافے کا پرانا فیصلہ ہی بر قرار رہے گا.
اب یہ گلگت بلتستان کے عوام اور عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران پر منحصر ہے کہ وہ وزارت امور کشمیر کے ترجمان کے اس مضمون کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں
Congratulations nation of gilgit of baltistan