افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
گلگت بلتستان اسمبلی کے ارکان جن کی نظر میں مخلوط نظام تعلیم علاقائی تہذیب و تمدن اور روایات کا متصادم ہے سے چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہ سوالات مُلّا برادری ، اور ان کے ہم خیال لکھاری اور مذہب اور کے ٹھیکیداداروں کے لئے بھی ہیں جو مخلوط نظام تعلیم کو معاشرتی مسائل کا اہم پہلو قرار دیتے ہیں۔
کیا کرپشن علاقائی رسم و رواج کا متصادم نہیں؟
کیا ہمارا رسم و رواج اقربا پروری کا درس دیتا ہے؟
کیا ہمارا تہذیب غریبوں کا حق چھیننے کا حکم دیتا ہے؟
کیا میرٹ کا قتل عام تہذیب کا کوئی پہلو ہے؟
کیا علاقے میں مسلکی منافرت مخلوط نظام تعلیم پھیلاتا ہے؟
کیا ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے مخلوط نظام تعلیم دیتا ہے؟
کیا تاریخ کا جنازہ مخلوط نظام تعلیم نکالتا ہے؟
کیا جنّت کے سر ٹیفیکٹ مخلوط نظام تعلیم بانٹتا ہے؟
کیا 1988ء کا قتلِ عام اور انسانیت کی بے حرمتی مخلوط نظام تعلیم کے سبب ہوئی تھی؟
کیا علاقے میں ہتھیار اور چرس مخلوط نظام تعلیم لے کر آیا؟
ان تمام سوالات کا جواب ’’نہیں‘‘ہے۔ حکمران ہر دور میں نظام تعلیم اور نصاب کے زریعے اپنے نطریات عوام پر مسلط کرتا ہے اس میں ملّا برادری اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مجوزہ فیصلہ بھی ایک ایسی کڑی ہے اور ملّا حسبِ معمول حکمرانوں کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ مذہب کو ٹشو پیپر کی طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں یہ شیخ و ملا کا پرانا وطیرہ ہے۔ وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ (روایات کے مطابق) مسلمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس احادیث پوچھنے آیا کرتے تھے۔ غزوات اور جنگوں میں مسلمان خواتین پانی پلایا کرتی تھیں۔رسول اللہ نے غزوہ بدر کے پڑھے لکھے قیدیوں کو مسلمانوں کو تعلیم دینے کا حکم دیا تھا مگر اس میں مردوں اور خواتین کو الگ الگ تعلیم دینے کا ذکر کہیں نظر نہیں آتا۔
پیغمبرِ اسلام نے فرمایا تھا
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘
اس حدیث میں صرف مسلمان مرد نہیں کہا ہے بلکہ’’ مسلمان ‘‘ جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ ہمارے ایک محترم کالم نویس نے مخلوط نظام تعلیم کو منشیات کا استعمال، خودکشی، شادی سے قبل حمل، جنسی بے راہ روی، طالبات کی حق تلفی، خاندانی نظام کی تباہی، والدین کا اولاد پر عدم کنٹرول، طلاق کی بڑھتی شرع، معاشرتی و سماجی انتشار، اکیلی ماؤں کا کلچر، عدم برداشت، شوہر کو غلام سمجھنے کی روش، نفسیاتی مسائل اور زنا بالجبر جیسے مسائل کا زمہ دارقرار دیا ہے اوراسے فطری قوانین کا خلاف کہتے ہیں۔ ایسے افراد کا عورت کو برابری کے حقوق دینا کجا وہ عورت کو انسان ہی نہیں سمجھتے ہیں ان کے لئے عورت بچے پیدا کرنے والی مشین کے سوا کچھ نہیں ۔ ان تمام مسائل کی ذمہ داری مخلوط نظام تعلیم پر عاید کرنا سمجھ سے بالاتر اور بد دیانتی ہے۔ انہی کے مطابق صدیوں پہلے یورپ بھی مخلوط نظام تعلیم کا مخالف تھا ۔ مگر آج یورپ ایسی بے وقوفی نہیں کرتا۔ اگر وہ مسلمانوں کی طرح غیر اہم مسائل میں الجھا رہتا توسیارے تسخیر نہیں کر پاتا۔ ہمارے انحطاط کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آگے سفر کرنے کے بجائے اپنے’’ شاندار‘‘ ماضی کا گرفتار ہیں.
بے علم بھی ہم لوگ ہیں، غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
علی احمد جان بھایی، آپ کا کالم غور سے پڑھا، اپ نے ملا کو لتھاڑنے کے علاوہ کویی علمی بحث کا اغاز ہی نہیں کیا، ہاں اپ نے جو سوالات اٹھاییے ہیں ان پر تو میں گزشتہ پانچ سال سے تسلسل کے ساتھ لکھ رہا ہوں، کس احمق کے بچے نے کرپشن، اقربا پروری، جھوٹ ، سیاسی منافقت اور دیگر سماجی برایوں کی حمایت کی ہے، یہ وہ ناسور ہے جس نے معاشرے کو برباد کر کے رکھ دای ہے، مجھے بے حد خوشی ہوگی کہ مخلوط نظام تعلیم پر اپ کویی سنجیدہ علمی بحث کا اغاز کریں، کسی کو کھری کھری سنانے سے علمی پہلو حل نہیں ہوا کرتے، میں یہ دوبارہ دہراتا ہوں کہ میں ایک ایسے ادارے مین پڑھاتا ہوں جہاں چھ سو طالبات رہایشی طور پر زیر تعلیم ہے، اپ کی علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ہم نے ان طالبات کو الگ تعلیم کا انتظام کیا ہے اور مکمل شرعی پردے کا اہتمام ہے اور پڑھانے والی ساری خواتین ہیں اور یہ ادارہ گلگت بلتستان میں لڑکیوں کاسب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے، اگر اپ چاہو تو اپنے ادارے کا وزٹ کراسکتا ہوں اور پورا ریکارڈ بھی پیش کرسکتا ہوں،
"سیگمن فراییڈ” کے ننگی تہذیبی اقدار کے عاشقوں سے گذارش ہے کہ
وہ اپنے ماضی کو اس طرح نہ بھلا دیں کہ مستقبل میں اپنی اولادوں سے
منہ چھپاتے پھریں۔
جس طرح ہمارے لئے ہمارا مستقبل بہت اہم ہے اسی طرح ہمارے لئے ہمارا ماضی بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
زندگی کے سفر پر چلنے کے لئے ہمیں اپنے ماضی اور حال کے آئینوں میں دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ ماضی بھی ہمیں ہمارے حال اور مستقبل کا
"روڈ میپ” بتا دیتا ہے۔۔۔
Ali Ahmad Jan, Allah app ki baton ko sumjhnay ka liyae humaray exterimist mullah aur is ka follers ko aqall dae. Agar humaray mulk main taleem aam hoo tu shayad iss turha sa log normal logon ki turha soch sukain ga. Why Islam and our society is not in danger when we see a movies on child sex abuse in different mudersas of Pakistan, when a mullah in the name of Halala commit zina, when mullah declare people wajib ul qatal in the name of Islam, when Nikah e Masyar and Nikah e Jihad are defended. Education enables a person to differentiate between right and wrong and your mullah never want people to realize the difference between right and wrong. I have spent more than half of my life in educational institutions where I have seen much lesser moral corruption as compared to the societies where ignorance and sectarianism dominates.
یہ مسلک پرست مُلا و شیوخ، اُن کے حکم پر چلنے والے حکومتی اہلکار اور قلم فروشوں کے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ یہ محرم نا محرم کا سبق سکھانے والے دور جدید کے تقاضوں کو سمجھ لیں۔ عورت کسی کی ملکیت نہیں ہے، عورت کو کیا کرنا چاہیے کیا نہیں اسکا فیصلہ عورت کا ہی حق ہے، کوئی ایرا غیرا اُٹھ کے عورت کی آذادی چھیننے کیلئے اینے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کر سکتا۔ دادی جواری نے حکومت کی ہے تُم ہر، غلامی میں رہ چُکے ہو عورت کے، اور عورت کے پاس اب بھی بادشاہت کی صلاحیت ہے۔
دُنیا کس سمت میں جا رہی ہے اور یہ مسلکی دانشور کس سمت ہمیں دھکیلنا چاہتے ہیں؟ ساری دُنیا کا ٹھیکہ لینا آپکا کام نہیں ہے جناب، آپ کو محرم نا محرم کے خود ساختہ فُتوے پر عملدرامد کرنا ہے تو اپنے لئے کیجیئے، ضروری نہیں ہے کہ سارا جہاں آپ کا ہم خیال ہو۔
ﮔﻠﮕﺖ ﺑﻠﺘﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﯿﺮﻧﮓ ﮐﺎﻟﺞ ﮐﺎ
ﻗﯿﺎﻡ ﮐﺐ ﺗﮏ ؟؟
ﺍﯾﻒ ﺍﯾﺲ ﺳﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﻠﮕﺖ ﺑﻠﺘﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ
ﮬﺰﺍﺭﻭﮞ ﻃﻠﺒﺎﺉ ﭼﻨﺪ ﻣﺨﺘﺺ ﺳﯿﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﻝ ﮐﯿﻠﺌﮯ
ﺭﺳﮧ ﮐﺸﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ! ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮐﯽ
ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺻﺮﻑ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﻣﯿﮟ 500
ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﺮﯼ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯼ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﯿﺮﯾﻨﮓ ﮐﮯ ﻃﻠﺒﺎﺉ
ﻭ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﺩﺍﺧﻞ۔
ﮐﯿﮉﭦ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮑﺮﺩﻭ،، ﭘﺒﻠﮏ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺍﯾﻨﮉ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮑﺮﺩﻭ
ﻭ ﮔﻠﮕﺖ، ﺍٓﻏﺎﺧﺎﻥ ﮐﺎﻟﺠﺰ، ﺍﺳﻮﮦ ﮐﺎﻟﺠﺰ، ﺍﻗﺮﺍﺉ ﮐﺎﻟﺞ،
ﻣﯿﺰﺍﻥ ﮨﺎﺳﭩﻞ، ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻧﺎﻣﯽ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻭ ﮐﺎﻟﺠﺰ
ﮐﮯ ﻃﻠﺒﺎﺉ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﯽ ﭨﯿﻮﯾﺸﻦ ﻓﯿﺲ ﻓﯽ ﻧﻔﺮ
30000 ﮬﺰﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻭﺳﻄﺎ
ﻣﺎﮨﺎﻧﮧ 15000 ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﯿﮟ ( ﺩﻭﺭ
ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﯿﻠﺌﮯ
ﺭﺟﺴﭩﺮﯾﺸﻦ، ﺳﻔﺮ ﻭ ﻗﯿﺎﻡ ﻭ ﻃﻌﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺍﻧﮑﮯ
ﻋﻼﻭﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻓﯽ ﻧﻔﺮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺑﻨﺘﺎ
ﮨﮯ!!!( ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮔﻠﮕﺖ ﺑﻠﺘﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ
ﻃﻠﺒﺎﻉ ﻭ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﺍﺗﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ
ﻣﮑﻤﻞ ﭘﺮﻭﻓﯿﺸﻨﻞ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﮐﺎ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﺑﺠﭧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﮔﻠﮕﺖ ﺑﻠﺘﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺍﮨﻞ
ﺳﯿﺎﺳﺖ ﺍﻥ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮯ ﺑﮩﺮﮦ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﺎﺷﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔۔۔ ﺍٓﺧﺮ ﮐﺐ ﺗﮏ ؟
حقانی صاحب
اختلاف رائے اپنی جگہ آپ کےلئے میرے دل میں بہت عزت ہے۔ مگر ایسی یک طرفہ تحریریں اس مرتبت میں خلل ڈالتی ہیں اور تاریخ سے صرف اپنی پسند اورمقصد کے لئے چیزیں اٹھانا میرے نزدیک بد دیانتی ہے۔
دوسری بات میں بھی درس وتدریس سے منسلک ہوں ہمارے ادارے میں طلباء کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں اور اس مخلوط نظام تعلیم سے فار غ التحصیل طلباء نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں اور منوارہے ہیں۔ گلگت میں بھی اغاخان ہائر سکینڈری اسکول کی مثال آپکے سامنے ہے۔ مجھے یقین ہے آپ کے تعلیمی ادارے کے طلبہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ آپ کی کوشیشیں قابل تعریف ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادرم علی گل گلی صاحب، مجھے معلوم ہے کہ اغا خان ہایی سیکنڈری کے طلبہ و طالبات قابل ہیں، فرق اتنا ہے ہم لڑکے اور لڑکیوں کو فری میں تعلیم دے رہے ہیں اور وہاں بھاری فیس بھی لی جاتییں ہیں۔ اگلی بات، بھیا میں نے تو کسی کو کویی گالی نہیں دی جس کی وجہ سے اپ کے دل میں میرا احترام ختم ہورہا ہے، علی بھیا، میں نے اپنی دانست کے مطابق دلایل سے مزین و مرصع کرکے ایک تحریر لکھی ہے، مجھے بے حد خوشی ہوگی کہ اپ سمت مخالف یعنی کو ایجوکیشن کے فضایل پر ایک اس سے بھی جاندار دلایل و براہین سے مرصع کرکے تحریر لکھیں، مجھے بے حد خوشی ہوگی، کیا اپ ایک پڑھے لکھے انسان ہوکر بھی مجھے اپنے خیالات(اگرچہ غلط ہوں) کے اظہار کا حق نہیں دیتے؟ اگر نہیں تو پھر یہ انسانی بنیادی حقوق کے خلاف ورزی بھی ہیں اور ایین پاکستان کی ارٹیکل نمبر انیس کی بھی مخالفت۔ اپ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں، اپ کو ایسی کمزور باتیں نہیں کرنی چاہیں۔ اگر اپ کے خیال میں میرے دلایل کمزور ہیں تو اپ مضبوط دلایل کے ساتھ لکھیں تاکہ مجھ سمیت اور قاریین بھی استفادہ کریں