کالمز

دہشت گردی کی کاروائیاں پھرسے شروع

سمجھ نہیں آرہا کہ بات کہاں سے شروع کروں کیونکہ کچھ عرصے کی وقفے کے بعد گزشتہ کئی مہینوں سے خطے میں دہشت گردوں نے پھر سے کاروائی شروع کر رکھی ہے گزشتہ مہینے دینور چوک پر ایک مقامی باشندے کو دن دھاڑے قتل کیا۔ اسی طرح جوٹیال کی ایک مسجد کے عقب سے بم برآمد ہوا جسے مقامی لوگوں نے پھٹنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا اور اب عالم برج پر دہشت گردی کا وقعہ پیش آیا۔

ایسے تمام واقعات کو دیکھتے ہوئے بھی مجھے قلم اُٹھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کیونکہ ہمارے خطے میں اس طرح کے ایشو پر لکھنا یا کسی حوالے سے خدشات کا اظہار کرنا بھی کچھ لوگوں کی نظر میں فرقہ واریت سمجھا جاتا ہے لیکن جو حقیقت ہے اُس سے اگر ہم لاکھ بار نظر چُرائیں تب بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔میں سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کووقفے وقفے سے دہشت گردی کا نشانہ بنانا یا تو سرکار کی پالیسی میں شامل ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ریاستی ادارے ریاست کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے کیونکہ گزشتہ دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کا اب تک سد باب نہیں کیا جاسکایہاں پر غلطی ہماری بھی ہے کیونکہ ہم اندھے بہرے اور لاغر ہوچکے ہیں کیونکہ اکثر اوقات ہم حقیقت سے اگاہی رکھتے ہوئے بھی اظہار کرنے کی ہمت نہیں کرتے کہ فلاں شخص جو ہمارے عقیدے کا سہارا لیکر فلاں کے خلاف فتوی جاری کرتے ہیں لہذا ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اب کیالکھوں اور کیا نہ لکھوں ذہن میں ایک عجیب وسوسہ ہے بس ایک سوال میرے ضمیر کو جھنجلا رہے ہیں کہ آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گاکیونکہ ہمارے لوگ دہشت گردی کی کھل کر مخالفت نہیں کرتے ۔ اگر میں دیکھوں کہ کچھ لوگ میرے عقیدے کا نام لیکر کسی بھی قسم کی دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور میں صرف عقیدے کی بنیاد پر اُن سے ہمدردی کا اظہار کریں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ مجھے اپنے عقیدے پر یقین نہیں کیونکہ کوئی بھی مسلک یا عقیدہ کسی کی قتل کا جواز فراہم نہیں کرتا لہذا اگر میں کسی دہشت گردی کی حمایت کریں یا اُس حوالے سے صفایاں پیش کرنا شروع کریں تو سمجھ لیں کہ میں بھی اُس جرم میں برابر کے شریکہیں ۔

my Logoحالیہ دھماکے کی پس منظر کو دیکھیں توگزشتہ دنوں میں مقامی پرنٹ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ وفاق نے ایک مراسلے میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عید سے پہلے گلگت بلتستان کو ایک بار پھر نشانہ بنایا جاسکتا ہے لہذا سکیورٹی ادارہ کو الرٹ ہونے کی ضرورت ہے راقم سوچ رہا تھا کہ روزمرہ کی مصرفیات سے کچھ وقت نکال کر اس اہم ایشو پر قلم اُٹھاوں معلوم ہوا یہاں تو دھماکہ بھی ہوگیا وہ بھی گلگت بلتستان کے داخلی حدود میں جس کا نشانہ بھی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایک خاص مکتبہ فکر تھا ۔ دہشت گردی کی اس کامیاب کاروائی کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گلگت بلتستان کی خفیہ ادارے بُری طرح ناکام ہوچکیہے اور انکی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جو گلگت بلتستان کی بجٹ کا آدھے سے ذیادہ سیکورٹی کے نام پر ہضم کرنے کے باوجود عوام کو جان مال کی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ اس سانحے سے پہلے تک عوام حکومتی اس دعوے سے خوش تھے کہ گلگت بلتستان کے تمام داخلی حدود پر سخت سیکورٹی ہے حالانکہ اس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو بھی کافی پریشانی بھی ہوتی ہے لیکن خطے کی سکیورٹی کا مسلہ سمجھ کر آج تک کسی نے اس مسلے پرانگلی نہیں اُٹھایا۔لہذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بم دھماکہ کرنے والے کوئی آسمانی مخلوق تو ہونہیں سکتے جوکسی کو دکھے بغیر کہیں نمودار ہوجائے اور دھماکے کرے۔

دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ لوگ اگر ہوائی اور زمینی راستوں سے آئے ہیں تو ہمارے سیکورٹی اداروں کی نااہلی یا ان میں بھی غدار لوگ شامل ہیں جو دہشت گرد کو خطے میں داخل ہونے کیلئے مدد فراہم کرتے ہیں، اور اگر یہ دونوں بات درست نہیں تو خطے میں کہیں تو کوئی ایسی جگہ ہے جہاں انکی کمین گاہیں موجود ہے وہاں بیٹھ کر یہ لوگ واردات کرتے ہیں ایسے میں ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے انکا قلع قمع کریں۔اسی طرح ہمارے عوام بھی جب تک مذہبی منافرت پھیلانے والے بدنام زمانہ کلعدم نام نہاد جماعتوں کی مخالفت نہیں کرتے تمام تر دعوے دھرے رہ جائیں گے کیونکہ یہ جماعتیں ہمیشہ دہشت گردی کیلئے عقیدے کا سہارا لیتے ہیں لہذا اب عوام کو سوچنا ہوگا کہ ہمیں اپنی جان مال کی حفاظت کس طرح کرنا ہے کیونکہ ریاستی ادارے ہر بار قتل کے بعد بلند بالا دعوے کرتے ہیں جو کچھ عرصہ دفتری کاروائی تک محدود رہنے کے بعد داخل دفتر ہوجاتے ہیں۔ہمیں وفاق سے یہ بھی شکایت ہے کہ ایک طرف آپ گلگت بلتستان کی جعرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی مرضی کے خلاف قبضہ جمائے جا رہے ہیں حالانکہ بین الاقوامی قوانیں کے مطابق آپکو حق نہیں کہ ریاست میں کوئی بھی کام یہاں کے باشندوں کی مرضی کے خلاف کریں یہی وجہ ہے کہ یہاں قوم پرستی نے جنم دیا جن کچلنے کیلئے ایسے کھیل کھیلا جارہا ہے تاکہ عوام اصل مسلے کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے جس کی ابتداء ضیاالحق نے آرمی کو استعمال کرتے ہوئے کیااُس کے بعد تواتر کے ساتھ یہ کام گزشتہ دہائیوں سے طالبان اوراور انکے ذیلی جماعتوں کو استعمال کرکے انجام دیا جارہا ہے ۔ ایسے میں گلگت بلتستان کے عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر کب تک ریاست کی رٹ کیلئے ہمارے خون ناحق بہائے جائیں گے؟ کیا گلگت بلتستان کے عوام اور آرمی کے جوانوں کی قربانی کا یہی صلہ دیا جار ہا ہے کہ وقفے وقفے سے یہاں کے باشندے قتل ہوتے رہیں؟اب بہت ہوگیا یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے کیونکہ یہاں کے عوام ایک طرف پچھلے 67سالوں سے آئینی اور سیاسی حقو ق سے محروم ہے تو دوسری طرف حقوق مانگنے کی جرم ہر بار دہشت گردوں کے ذریعے مسلک اور عقیدے کی آڑ میں یہاں کے باشندوں کو کو قتل کیا جارہا ہے اس گریٹ گیم کو اب اور ہوجانا چاہئے ورنہ بغاوت کی راستے کو کوئی نہیں روک سکتا۔یہاں پر جو مذہبی رواداری دیامر سے لیکر بلتستان کے آخری حدود تک کے عوام نے قائم کیا ہے اس ختم کرنے کی گہری سازش ہورہی ہے اور اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے انہی قوتوں کو سیاست میں آگے لانے کی ضرورت ہے جنہوں نے یہاں کے عوام کو ایک کرنے کیلئے پُل کا کردار ادا کیا اور کرتے رہے ہیں۔ اب اگر آخر میں عوامی ایکشن کمیٹی کا ذکر کریں تو انکے لئے امتحان کا وقت ہے کیونکہ کمیٹی نے اعلان کیا ہوا ہے کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا ایف آئی آر مقامی انتظامیہ اور بیوروکریسی کے خلاف درج کیا جائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی اس حوالے سے کیا لائحہ عمل طے کرتے ہیں عوام کی نظریں ان پر مرکوز ہے۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button