محرم الحرام کے دو شہید ’’فاروقؓ و حسینؓ ‘‘
محرم الحرام کے مقدس مہینے میں دو واقعات ایسے پیش آئے کہ تاریخ انسانیت آج تک ان کو بُلا نہ پائی۔ یکم محرم الحرام۲۶ سن ہجری کوخلیفہ ثانی سیدنا عمرفاروقؓ کو شہادت کی خلعت فاخرہ ملی جبکہ عاشور یعنی دس محرم الحرام کو جگرگوشہ بتول امام عالی مقام جناب حضرت حسینؓ کو شہادت کا اعلیٰ مقام نصیب ہوا۔ دونوں کی قسمت پر ناز اور فخر ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس آج ان دونوں عظیم شخصیات کو تقسیم کرکے متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ ان کا مقام بہت اونچا تھا مگر افسوس انہیں مختلف خانوں میں بانٹ کر انہیں چھوٹا دکھائی دینے کی کوششیں ایک عرصے سے جاری ہیں۔ عمرؓ اور حسینؓ کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ جوطبقہ عمرؓ کو اپنا مانتا ہے وہ جہالت اور کم علمی و پروپیگنڈے کی بنیاد پر حسینؓ کو اپنا نہیں سمجھتا یا کم از کم کسی اور کا سمجھتا ہے۔ اور جو طبقہ حسینؓ کو اپنا سمجھتا ہے وہ ضد، حسد ،کینہ ، جہالت ، کج فہمی اورپروپیگنڈے کی بنیاد پر عمرؓ کو کسی اور کا سمجھتا ہے، کم از کم اپنا تو نہیں سمجھتا۔ بدیہی حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ و حسینؓ اسلام کے ہیں۔ آج ان دونوں عظیم المرتبت انسانوں کے حوالے سے چند الفاظ اس لیے قرطاس کے سپرد کررہا ہوں کہ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ یہی میرا ایمان ہے اور یہی میرا وجدان و اعتقاد بھی ہے۔اہل بیت اطہارؓ اور اصحاب رسولؓ پر درود و سلام بھیجے بغیر تو میری نماز بھی کامل نہیں تو پھر یہ میرے کیسے نہیں ہوسکتے۔
حضرت عمر فاروقؓ قانون کی بالادستی اور تنفیذ کے حوالے سے بہت ہی معروف و مشہور تھے۔ان کا ذہن و سیع اور نگاہ دورس تھی۔حضرت عمرؓ وہ اولین حاکم تھے جس نے امت کو حکمرانوں کے حقوق بتانے کے ساتھ ساتھ رعایا کے حقوق بھی واضح بیان کیے تھے۔انہوں نے ارشاد کیا تھا کہ’’ جس کسی پر بھی کوئی گورنریا امیر ظلم و زیادتی کرے وہ مجھے براہ راست اس کی اطلاع کرے۔ میں اس سے بدلہ دلوؤنگا‘‘۔حضرت عمرؓ نے انصاف کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کردیا تھا، انہیں معلوم تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اور نزاعات کا فیصلہ کرنے کی اختیار کسی ایک فردیا ادارے کے پاس ہو تو پھر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے تھے۔ اسلام کسی حاکم کو حدود سے تجاوز کرنے کی قطعا اجازت نہیں دیتا۔
خود احتسابی کا عمل شاید سب سے مشکل ہے۔ خود احتسابی ایک عظیم صفت اور اخلاقی خوبی ہے اور یہ بدرجہ اتم حضرت عمرؓ میں پائی جاتی تھی۔وہ فرمایا کرتے تھے’’ محاسبے کے وقت سے پہلے اپنا محاسبہ کرلو ۔ اعمال کا ترازو لگنے سے پہلے اپنے اعمال کا وزن کرلو‘‘۔وہ ایک کامیاب حکمران تھے۔ قحط سالی میں ان کا طرز عمل مثالی ہوا کرتا تھا۔ جب رعایا کو کسی بات کا حکم دیتے تو خود اس پر پہلے ہی کاربند ہو جاتے تاکہ رعایا کو بہترین نمونہ پیش کریں۔ حضرت عمرؓ اپنے گھر والوں اور اہل عیال کو قانون و روایات کی پابندی و احترام کرنے کی تاکید اور حکم دوسروں سے زیادہ کیا کرتے تھے تاکہ اس کا اثر عامۃ الناس پر خود بخود ہوجائے اور اچھے اور مفید نتائج برآمد ہوجائے۔زہد و سادگی اور قناعت حضرت عمرؓ کی زندگی کی خاص باتیں تھیں، مسلمانوں کے بیت المال کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرتے تھے۔سچائی اور انسانیت و مومنین کی بھلائی حضرت عمرؓ کے نزدیک سب کاموں سے اہم اور مقدم تھی۔ اس حوالے سے کبھی سستی اور کسالت اور مداہنت نہیں برتا کرتے ، حالات کیسے بھی ہوں ان چیزوں کا بڑا خیال کرتے۔
حکمرانی کے جملہ اوصاف حمیدہ اور شعبہ ہائے زندگی کے ہر میدان میں کامیابی و کامرانی اور نصرت خداوندی اگر کسی ایک حاکم میں دیکھنا مقصود ہو توانسان کی نظر بلاجھجک امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کی طرف ہی اٹھتی ہے۔ حضرت عمرؓ کی یہ صفت روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے اور ا س کا انکار ممکن نہیں۔حضرت عمرؓ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم تھا کہ آپ خلافت اسلامیہ کی تمام ذمہ داریوں اور نزاکتوں سے بخوبی آگاہ تھے اور اس کا حق اداکرنے میں باریک بین اور حد درجہ محتاط تھے۔ آج دنیا یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتی کہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے حقِ حکمرانی ادا کیا۔یہ چند الفاظ سیرتِ عمرؓ کے مطالعہ سے ذہن نشین ہوئے تھے جو آپ کے ساتھ شیئر کیے۔اب امام عالی مقام حضرت حسینؓ ، شہید کربلا کی صفات جلیلہ سنتے ہیں۔
اہل بیت اطہار کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ’’ انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اھل البیت و یطہرکم تطہیراًِ‘‘۔ یعنی اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے رسول کے اہل بیت، تم سے ہرقسم کے گناہ کا مَیل دور کردے اور تمہیں کامل و اکمل طہارت سے نوازکر بالکل پاک و صاف کردے‘‘۔ اس آیت کریمہ میں اللہ کی یہ منشا محکم طور پر واضح ہوئی ہے کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے اہل و عیال یعنی اہل یبت اطہار کو طاہر ومطہر کردے کہ ان کی حیات مبارکہ میں کوئی میل کچیل نہ رہے اور وہ امت کے لیے نمونہ و اسوہ بنے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مختصراً عرض ہے۔ ان کی سیرت و صورت کے مطالعہ سے جو حاصل ہوا وہ آپ سے شیئر کررہا ہوں۔کیونکہ یہ ان کا حق ہے اور میرا فرض۔ان کا نام حسین رضی اللہ عنہ بن علی المرتضی رضی اللہ عنہ، کنیت ابو عبداللہ، لقب سید شباب اہل الجن اور ریحان النبی، والدہ کا نام سیدہ فاطمہ خاتون جنت رضی اللہ عنہاتھا۔حضرت حسینؓ کی ولادت بھی بہت ہی باسعادت تھی۔حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا تھاجو کہ ظاہراً ناگوار سا تھا مگر آنحضرت ؑ نے اس کی تعبیر ولادت حسینؓ سے کی۔ ماشاء اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو نہایت مبارک خواب ہے۔ یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا لڑکا پیدا ہوگا یہی لڑکا حضرت حسینؓ تھا،کچھ دنوں کے بعد اس خواب کی تعبیر ملی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت حسینؓ کی ولادت کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عقیقہ کرنے اور بچہ کے بالوں کے ہموزن چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے آپ کا نام حرب رکھا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام بدل کر حسین رضی اللہ عنہ رکھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے ساتھ پیار و محبت کے بیشمار واقعات ملتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا روزانہ حسنؓ و حسینؓ کو دیکھنے کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور دونوں کو بلاکر پیار کرتے اور کھلاتے۔ یہ دونوں معصوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد مانوس اور شوخ تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی شوخی پر تنبیہ نہیں فرمائی بلکہ ان کی شوخیاں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے دوش مبارک پر سوار کرکے برآمد ہوتے تھے اور ان کی ادنی سے ادنی تکلیف پر بے قرار ہوجاتے تھے۔ حضرات حسنین کریمین کبھی نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ کر بیٹھ جاتے۔ غرض کہ طرح طرح کی شوخیاں کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پیار اور محبت سے ان طفلانہ شوخیوں کو برداشت کرتے اور کبھی تادیبا بھی نہ جھڑکتے بلکہ ہنس دیا کرتے تھے۔یہی تو تعلیمات نبوی ﷺ تھیں۔ابھی امام حسین رضی اللہ عنہ صرف سات سال کے تھے کہ ہادی دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا سای شفقت سر سے اٹھ گیا۔ اس لیے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے اتنا فیض حاصل کرنے کا موقعہ نہ ملا جتنا انکے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی احادیث کی تعداد کل آٹھ ہے،۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جن بزرگوں سے آپ نے احادیث روایت کی ہیں ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت فاطم الزہرا رضی اللہ عنہا، حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ جنہوں نے حضرت حسینؓ سے روایتیں کی ہیں ان کی تعداد لمبی ہے تاہم مشہور یہ ہیں۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، صاحبزادہ علی رضی اللہ عنہ،صاحبزادہ زید رضی اللہ عنہ،صاحب زادی سکینہ و فاطمہ رضی اللہ عنہما، پوتے ابوجعفروغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بہت پیار و محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ‘‘یعنی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ایک مرتبہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ان الحسن والحسین ہما ریحانی من الدنیا‘‘ یعنی بے شک حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں میرے دنیا میں پھول ہیں۔امام عالی مقام تو سب کے لارڈلے تھے۔ان کی ذات اقدس سے صحابہ کرامؓ بھی بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں آپ تقریبا آٹھ نو برس کے تھے۔ آپ سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ ادب و محبت سے پیش آتے تھے اور آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے۔امیرالمومنین حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں آپ پورے جوان ہوچکے تھے۔ چنانچہ سب سے اول اسی دور میں میدان جہاد فی سبیل اللہ میں قدم رکھا۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں۔ انہوں نے نہایت بہادری سے باغیوں کو گھر گھسنے سے روکا تاہم باغی کوٹھے پر چڑھ اندر پہنچ گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے دونوں بھائیوں سے سخت باز پرس کی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت باسعادت کے بعدا ن کی نصیحت کے مطابق حضرت حسینؓ نے علوم اسلامیہ میں کمال حاصل کیا اور علوم حدیث اور تفسیر کے ماہر بن گئے۔ اورفقہ و فتوی میں چونکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو موروثی دولت سے وافر حصہ ملا تھا چنانچہ آپ کے ہمعصر آپ سے استفادہ کیا کرتے تھے۔اور کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو ان کی طرف رجوع کرتے۔
حضرت حسینؓ کے مقولے اور اقوال حکمت بہت مشہور اور عام فہم ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ سچائی عزت ہے، جھوٹ عجز ہے، رازداری امانت ہے، امداد وستی ہے، عمل تجربہ ہے، حسن خلق عبادت ہے، خاموشی زینت ہے، بخل فقر ہے، سخاوت دولتمندی ہے، نرمی عقلمندی ہے۔اگر ان اقوال کے دل سے پڑھا جائے اور سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو کامیاب زندگی گارنٹڈ ہے۔
حضرت حسینؓ کی ذات اقدس فضائل اخلاق کا مجموعہ تھی۔روایات میں آتا ہے کہ’’ کان الحسین رضی اللہ عنہ کثیر الصلو والصوم والحج والصدق افعال الخیر جمیعا‘‘۔ یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ بڑے نمازی، روزہ دار، بہت حج کرنے والے بڑے صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کو کثرت سے کرنے والے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی صفات بے شمار ہے تاہم کاغذ کے ان اوراق میں اتنی گنجائش نہیں کہ سب کو سمیٹا جائے۔مالی اعتبار سے آپ کو خدا نے جیسی فارغ البالی عطا فرمائی تھی اسی مقدار میں آپ راہ خدا میں خرچ کیا کرتے۔آپؓ حد درجہ خاکسار اور متواضع تھے۔ ادنی سے ادنی شخص سے بھی بے تکلفی سے ملنا آپ کی عادت مبارک تھی۔حضرت حسینؓ کی حق پرستی کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے کہ راہِ حق میں اپنا سارا کنبہ لٹایامگر ظالموں کے سامنے سرنہ جھکایا۔آپ کا حلیہ مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھا۔ آپ اتنے حسین تھے کہ آپ کے رخساروں سے نورانیت چمکتی تھی۔
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے متعلق پہلے ہی ارشاد کیا تھا ۔حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا فرمان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ تعالی عنہ میرے بعد زمین طف (جس کو اب کربلا کہتے ہیں) میں قتل کیا جائے گا اور جبرئیل علیہ السلام میرے پاس اس زمین کی یہ مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ یہی مٹی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے۔بالآخرحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دس محرم الحرام ۶۱ سن ھجری کو آ ٹھاون سال کی عمر میں مقام کربلا میں شہید کیے گئے۔ اللہ تعالی آپ کی مرقد مبارک پر ہزارہا رحمتیں اور کروڈوں برکتیں نازل فرمائے۔اور ہم جیسوں کو آپ کے شہادت کے مقاصد جلیلہ سے مستفید ہونے اور اپنے لیے راہِ عمل بنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔