کالمز

سیاست دان

hayatصوبے کا حکمران ابھی اپنے بیڈ روم میں ہی تھے۔T.Vچینل کھول کے ابھی ملکی حالات سے باخبر ہونے جارہے تھے۔کہ نوکر نے آکرعرض کیا ۔۔۔سرناشتہ لگا ہے۔۔۔حکمران اٹھتے ہیں اور اپنے ڈرائینگ روم میں چلے جاتے ہیں۔آپ کے سارے گھر والے ناشتے میں آپ کا انتظار کررہے ہیں۔سب اپنی نشستوں پر ہیں۔میز اللہ کی نعمتوں سے بھری پڑی ہے نوکر کھڑے ہیں حکمران اپنی نشست پہ بیٹھتا ہے۔پتہ نہیں آج خاموش ہے۔۔۔اسی لمحے زندگی ایک فلم کی طرح آپ کے خیالات کے سکرین پر دوڑتی ہے۔آپ کو پتہ ہے کہ زندگی ہر کہیں اسطرح رنگین نہیں۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے کہ ابھی کتنے مزدور روکھی سوکھی کھاکے مزدوری پہ نکلے ہیں۔آپ کو احساس ہے کہ کتنی ناتوان جانیں پالش برش کی صندوق کندھوں پہ اُٹھا کر رزق کی تلاش میں نکلے ہیںآپ کو اندازہ ہے کہ کتنے کپڑے ،جوتے اور فیس نہ ہونے کی صورت میں تعلیم سے محروم گھروں میں بیٹھے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہسپتال مریضوں کی کراہوں اور اہوں سے دھواں دار ہورہے ہیں۔محسوس کرتے ہیں کہ کتنی آنکھیں آپ کے دروازے پر آس لگائے ٹکی ہیں کہ وزیراعلیٰ ہمارے مسائل حل کریں گے۔کتنے بچے بھوک کی شکایت کررہے ہیں ۔اور والدین ان کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں۔آپ کسی اور جہان میں چلے گئے۔سارا خاندان آپ کا انتظار کررہا ہے۔آپ کی سوچوں کی سکرین پہ فلم کی ایک مختصر قسط چلتی ہے۔۔۔۔خلفیتہ المسلمین بیٹھے ہیں۔ان کی دوچھوٹی شہزادیاں کھانا کھارہی ہیں۔کھانے میں جوکی کی دو دن کی سوکھی روٹی اورپانی ہے۔لقمے خلق سے نیچے نہیں اُتر رہے۔بچیاں تکلیف میں ہیں۔خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؓ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آتے ہیں بیوی ملکہ وقت تسلی دیتی ہیں۔۔۔’’کوئی بات نہیں بچیاں ہیں ۔لقمے ترتر ہوتے ہوتے آخر خلق سے اُتر ہی جائیں گے‘‘۔خلیفہ الوقت کہتے ہیں۔۔۔میں اس لئے نہیں رو رہا کہ میری بچیاں روکھی سوکھی کھارہی ہیں اس لئے رورہا ہوں کہ میری اس وسیع سلطنت میں خدا نہ کرے کوئی بچہ ایسا ہوکہ اسے جو کی روکھی سوکھی بھی میسر نہ ہو۔۔۔اگر ایسا ہوا تو میں کل قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دونگا۔یہ جواب سن کر شہزادیاں چمک اُٹھتی ہیں کہتی ہیں کہ ابو ہم یہ کھاکر اللہ کا شکر ادا کریں گے۔۔۔۔حکمران یکدم اپنی نشست سے اُٹھتے ہیں ایک بازو اُٹھا ہوا ہے۔آنکھوں میں آنسو ہیں۔سارا خاندان آپ کے ساتھ اُٹھا ہے۔بیگم پوچھتی ہیں۔۔۔کیا ہوگیا۔۔۔فرماتے ہیں میرے سامنے سے سارے کھانے ہٹادو۔تندور کی روٹی کا کوئی روکھی سوکھی ٹکڑا پانی کے ساتھ لادو۔۔۔میں نے اپنے رب سے وعدہ کیا ہے کہ میرے صوبے کا کوئی فرد بھوکا نہیں رہے گا میرے بچے وہی کھائیں گے جو غریبوں کے بچے کھاتے ہیں وہی پہنیں گے جو غریبوں کے بچے پہنتے ہیں۔۔۔۔اقتدار آزمائش ہے اور میں اپنے رب کے حضور سرخرو جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔سارے بچوں کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون گرم ہوجاتا ہے۔سب ایک زبان ہوکر کہتے ہیں ابو ہم سب کا یہی وعدہ ہے۔آپ کے نزدیک ہم میں اور غریبوں کے بچون میں فرق نہ رہے۔۔۔۔محترم قارئین !یہ ایک احساس ہے یہ جنم لیتا ہے۔یہ ایک معیار ہے یہ پنپتا ہے۔یہ ایک درد ہے یہ سینے میں اُٹھتا ہے۔یہ ایک جذبہ ہے جو ’’سیاست کار‘‘کو’’سیاست دان‘‘بنادیتا ہے اور یہی سیاست دان قوم کا بڑا خادم کہلاتا ہے۔اسی کے ایک حکم پہ وقت رُک جاتا ہے۔خشک دریا رواں ہوتا ہے۔

میدان میں جنرل کو اس کی آواز ہزاروں میل دور پہنچتی ہے۔۔۔اے پہاڑ والے۔۔۔اسی کی آہ کی تاثیر سے زبانوں کے رُخ بدلتے ہیں۔ایک چرواہا چیخ کرکہتا ہے۔میرے ریوڑھ میں بے ترتیبی آگئی شاید خلیفہ وقت وفات پاگئے ہیں۔یہی لیڈر شپ ہے یہی ایک مضبوط تلوار ہے۔یہی لیڈر زلزلہ آنے پر زمین دوز سے پاؤں باہر کر کہہ سکتا ہے۔۔۔۔ہلتی کیوں ہو کیا تمہارے اوپر انصاف نہیں ہورہا ۔یہ ایک ایسا احساس ہے جو نسیم سحر کی طرح ہر ایک کی مشامِ جان معطر کرتا ہے اور لیڈر کی پوجا شروع ہوتی ہے۔یہی ایک فارمولا ہے جس پر سیاست کی بنیاد ہے۔یہی مقبولیت کے لئے شرط اول ہے،یہی وہ اصل ہے جس کی وجہ سے دلوں پر راج کیا جاتا ہے۔یہی چیز کارواں والوں کو میر کارواں کے اردگرد پروانوں کی طرح جمع کرتا ہے۔یہی چیز لیڈر کے دل میں اپنی رعایا کے لئے محبت پیدا کرتی ہے۔۔۔۔حکمران کا دل مطمئن ہوتا ہے۔غرور کا بت خود بخود کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔۔۔بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکلتا ہے۔راستے میں گاڑی کے شیشے نیچے کرکے ادھر ادھر محبت بھری نظروں سے دیکھتا ہے متلاشی نگاہیں ڈھونتی ہیں۔مزدور اپنے کام پر جارہے ہیں ۔ہوٹلیں کھلی ہیں۔لوگ دفتروں کوجارہے ہیں بچے سکولوں کی طرف روان دوان ہیں۔زندگی جاگی ہے آپ کادل بھیلیوں اچھلتا ہے۔آپ کو اپنی پاک سرزمین سے محبت ہوتی ہے۔دل چاہتا ہے کہ گاڑی روک کے اترے اور ہر ایک کو گلے لگائے۔سب کو سینے میں چھپالے۔دفتر میں داخل ہوتا ہے اس کو اپنے دفتر ،اپنے پی اے ،اپنے عملے سے محبت ہوگئی ہے۔وہ کرسی پہ بیٹھتا نہیں ہے۔شیڈول مانگتا ہے۔شیڈٖول لاکے رکھا جاتا ہے۔مصروفیات کی لسٹ میں ایک سکول کا دورہ ہے،فنکشن پہ جانا ہے۔ایک ہسپتال میں نئے بلاک کا افتتاح ہے۔باقی کوچھوڑکران کو ٹیک مار کرتا ہے۔ہسپتال پہنچ کر نئے بلاک کی طرف نہیں جاتا سیدھا مریضوں کے سرہانے پہنچتا ہے۔ہر ایک کا درد اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے۔ایک بوڑھے کا ہاتھ چومتاہے۔بوڑھا اس کی طرف دیکھتا ہے توا س کی آنکھوں میں ڈوپ جاتا ہے۔سکول کی گیٹ پہ بچے پھول لے کے کھڑے ہیں۔ان کی پیشانیاں چومتا ہے ان کے ہاتھوں میں موجود پھولوں کو چومتا ہے۔بچوں کا نعرہ بلند ہوا ہے۔’’حکمران‘‘زندہ باد‘‘۔۔۔اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو ہیں،اللہ نے اس کو سچا لیڈر بنادیا ہے۔۔۔۔اور قیامت کے دن عادل حکمران اللہ کی رحمت کے سایے میں ہوگا۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button