کالمز

سانحہ پشاور، ذمہ دار کون؟

کریم اللہ
کریم اللہ

دفاعی اداروں ،سیاسی جماعتوں اور نام نہاد علما کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک آگ وخون کی دلدل میں دھنس چکا ہے ہر طرف دھماکے ،ٹارگٹ کلنگ اور مخالفین کو گھر بار سمیت جلائے جانے کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گیا ہے گزشتہ تیس پینتس برسو ں سے پالیسی ساز اداروں کی غلطیوں کی بدولت ابھی تک ساٹھ ہزار کے قریب پاکستانی ناکردہ گناہوں کے جرم میں ابدی نیند سوگئے ہیں لیکن اب بھی ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں اگر تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ اتنا سفاک ،بزدل،بربریت سے لبریز اور خون آلودبھی نہیں تھا ایک وہ زمانہ تھا جب دو افراد کی لڑائی اورانکے ایکدوسرے پر چاقوں سے حملہ اخبارات کی شہہ سرخی بن جاتی اور ایک یہ وقت جب ایک ہی سانس میں 140علم کے پیاسوں کی ہلاکت بھی معمولی خبر بن گئی ہے۔ پشاو ر کے کینٹ جیسے حساس علاقے میں ہونے والا حالیہ حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں لیکن اس سے قبل بھی بہت سارے ایسے غیرمعمولی مقامات پر تباہ کن حملے ہوچکے ہیں ،مہران بیس ،جی ایچ کیو ،پشاور اور کراچی ائیر پورٹس جیسے دفاعی اہمیت کے حامل علاقے بھی اس دہشتگردی کی زد میں آچکے ہیں لیکن آفسو س سے کہنا پڑرہا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث مجرموں کا کوئی پتہ نہیں چلا نہ ہی کوئی تحقیقاتی رپورٹ عوام کے سامنے لائی گئی۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پر ہونے والے حملے کے بعد سیاست دانوں،صحافیوں ،پالیسی سازوں ،علما اور دفاعی اداروں کے سربراہوں کی جانب سے وہی رٹی رٹائی گھسی پٹی بیانات سننے کو ملی جنہیں گزشتہ بارہ سالوں سے سن کر عوام کی کان پک چکی ہے عین اس وقت جبکہ پشاور لہولہاں تھا ملتان میں ایک تنظیم کے اہلکاروں نے شہدا کی یاد میں شمع روشن کرتے ہوئے مصنوعی دکھ کا اظہا رکرنے کے ساتھ ہی پاک فوج زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جسکا مطلب ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا۔سوشل میڈیا میں جاری بحث کو ایک خاص رنگ میں موڑ کر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں بھی ہورہی ہے ایسے وقت میں جبکہ آہوں او ر سسکیوں سے پشاور کی فضا سوگوار تھی لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز المعروف مولانا برقہ نے ایک ٹی وی چینل پر آکر اس حملے کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے لئے جواز تلاش کرکے گویااس واقعے کی حمایت کی مولانا نعیمی صاحب کے بقول پی ٹی آئی کے جلسے میں ناچ گانوں کی وجہ سے قوم پرطالبان کے حملے کی صورت میں عذابِ خداوندی نازل ہوئی یعنی کہ’’ کرے کوئی بھرے کوئی‘‘مولانا طارق جمیل نے بھی نپی تلی انداز سے ساری صورتحال کوکنفیوژن میں ڈالنے کی کوشش کی۔ ملاؤں کے کردار تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں البتہ وردی والوں اور ان کے پروپیگنڈہ مشینریز کے پھیلانے ہوئے سازشی تھیوریز سے اس حملے کے محرکات اور سیکورٹی کی صورتحال سے متعلق سوالات مبہم ہورہے ہیں ۔

سپہ سالار کے افعانستان کا دورہ اور افعان صدر کو دھمکی دینے کی باتین سامنے آئی ساتھ ہی اس حملے کے پیچھے افعانستان میں موجود بھارتی قونصل خانوں کے ملوث ہونے کی افواہ پھیلائی جارہی ہے سابق کمانڈو صدر جنرل مشرف اور افعانستان و پاکستان کو اس تباہی کے دھانے پہنچانے کے اصل ذمہ دار جنرل حمید گل نے بھی بھارت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے اگر ان کے الزامات کو مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پشاور کے کینٹ جیسے دفاعی اہمیت کے حامل علاقے میں واقع آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا دفاعی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ؟ آٹھ بھارتی ایجنٹ افعانستان میں تربیت حاصل کرکے بھاری ہتھیاروں اور گولہ بارود سمیت پاکستان میں داخل ہو کر پشاورکے اتنے حساس علاقے میں پہنچ کر اتنی بڑی کاروائی کی اس دوران عقبی نگاہ رکھنے والے خفیہ اداروں کے اہلکارجو کہ بے گناہوں کو اٹھا کر غائب کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے کو ان دہشت گردوں کی معمولی بو بھی محسوس نہ ہوئی ۔ اگر اتنے ہائی سیکورٹی زون بھی غیر محفوظ ہیں تو پبلک مقامات کی حالت کیا ہوگی؟جب سے خیبر ون میں فوجی آپریشن شروع ہوچکا ہے مسلسل رپورٹس آرہی تھی کہ پشاور میں کسی بھی وقت بڑا حملہ ہوسکتا ہے پھر بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی آخر کیوں؟؟شائد ان سوالوں کے جواب کبھی بھی نہیں ملے گا کیونکہ جو سازشی تھیوریز کا سلسلہ شروع ہوا ہے آگے جا کر اس ساری تباہی کا الزام بھارت،اسرائیل ،روس اورامریکہ پر ڈال کر دفاعی ادارے ،حکمران او ر سیاست دان خود کو بری الزمہ ٹہرا یئنگے ۔دہشت گردی کے اس واردات کے بعدپشاور میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقادکیاگیا جسمیں ایک کمیشن بٹھا کرسات دنوں میں اس سارے معاملے کی تحقیقا ت مکمل کرکے رپورٹ حکومت کو حوالے کرنے پر اتفاق ہوا ہے یہ بھی اتفاق ہواکہ طالبان کے خلاف بے غیر کسی تفریق کے کاروائی کی جائے گی اگر بالفرض قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کرکے طالبان کا خاتمہ بھی کیا جائے تو کیا پنجاب ، سندھ، بلوچستان،کے پی ،کشمیر،گلگت بلتستان اور وفاقی دارلحکومت میں واقع دہشت گردی کے اڈوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہوگی ؟کیا پاک فوج تعزیراتی گہرائی( Strategic Dept)کے نا م پر جن گروپوں کو بھارت اورافعانستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ان کو لگام دیاجائے گا؟ کیا قبائلی طالبان کے ساتھ ساتھ لشکرِ جھنگوی،جیش محمد، سپاہ صحابہ ،لشکر طیبہ ،جماعت الدعویٰ سمیت بیسیوں تکفیری دہشت گرد گروہوں( جنہیں پاکستان آرمی اور خفیہ ادارے اسٹریٹجک مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں اورجنہوں نے اہلِ تشیع ، صوفی سنی ،اقلیتوں اور لبرلز کے خلاف خود ریز جنگ جاری رکھی ہوئی ہے)کے خلاف بھی وزیرستان،سوات یا خیبر طرز کا آپریشن کیا جائے گا ؟ مولانا برقہ وفاقی دارلحکومت کے وسط میں بیٹھ کر جس طالبانائزیشن کو پروموٹ اور دہشتگردی کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں ان کے ادارے جامعہ حفضہ سے داغش کی حمایت میں ویڈیوز اور بیانات سامنے آرہے ہیں کیا ان کے خلاف بھی کوئی کاروائی عمل میں لائی جائے گی؟ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے چالیس ہزار سے زائد دہشت گردپیداکرنے والی فیکٹریوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے سخت گیر اقدامات اٹھانا، پاکستان کے آئین میں موجود تھیوکریٹک شقوں(جو شدت پسندی کے فروع میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں) کا خاتمہ کر کے آئین کو خالصتاََ سائنسی سیکولر بنیادوں استواکرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر پائیدار امن کا قیام تپتی صحرا میں سراب سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔

(کالم نویس فری لانسر جرنلسٹ ،کالم نویس اور نیشنل یوتھ اسمبلی خیبر پختونخواہ میں منسٹر آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کام کر رہے ہیں ای میل آئی دی karimullahcl@gmail.com)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button