یہ کیسی خوشی ہے؟
کامریڈاحتشام علی
میں نے ایک بات ۳۱ دسمبر کی شب محسوس کی۔ بہت سارے لوگ سال کے بدلنے کی خوشی میں محفلیں سجارہے ہیں۔
کوئی ۱۲ بجے ہی پٹاخے پھوڑ کر خوشیاں منانے کا سوچ رہا ہے اور بچے، بو ڑھا، جوان ہر شخص کی ہی کیفیت تھی۔ T.V انیکرز بڑے ولولے کے ساتھ اپنے ناظرین کو دنیا بھر میں ہونے والی تقاریب کے مناظر دیکھا رہے ہیں۔ موبائل فون پر ’’ ہیپی نیو ائیر ان اڈوانس‘‘ کے پیغامات موصول ہورہے ہیں ۔ فیس بک پر ہر کوئی اپنے دوستوں کو اڈوانس میں مبارک باد دے رہا ہے، بالاخر وہ لمحہ آگیا۔ سال بدل گیا۔ سرکاری رہائش گاہوں سے لیکر نجی ہوٹلوں تک پٹاخے پھوڈے گئے۔ ہر طرف جشن کا سماء تھا۔
اِن تمام مناظر کو دیکھنے کے بعدایک سوچ نے مجھے بے چینی میں مبتلا کر دیاکہ دن ، ہفتے، مہینے اور پھر سال یہ تو بدلتے رہتے ہیں وقت کے ساتھ ہندسوں کا بدلنا فطرت ہے۔ اِن کو بدنے کے لیے کسی انسان کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ تو خود بخود بدل جاتے ہیں۔
تو پھر یہ کیسی خوشی ہے؟ یہ کیسی مبارک بادی۔۔۔۔ ایک ایسا ملک جہاں 70% لوگ بنیادی حقوق اور ضرورتوں سے محروم رہیں، جہاں 15لاکھ سے ذائد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ، جہاں طلبہ کو اظہار کا حق حاصل نہیں ہو ، جہاں مزدوراورکسان سے 12 گھنٹے کام کرواکر صرف چند سے روپے دیتے ہوں، جہاں دہشت گردی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہو، جہاں سیاست نے مختلف اقوام کو قومیت کے حق سے محروم رکھاہو، جہاں لوٹ مار ،چوری، ڈکیتی، گنڈہ گردی، قتل ووغارات عام ہو ، جہاں حکمران اور سیاسی پاڑئیاں عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بظاہر مخالفت اور اندر سے ملی بھگت سے عوام کو لوٹ رہے ہوں۔ایسی قوم کو ہیپی اور مبارک بادی کے الفاظ ذیب نہیں دیتے۔
اور عام آدمی نئے سال کے مو قعے پر ایسی خوشیاں منارہے ہوتے ہیں ۔ جیسے اگلے دن سے ہمارانظام ٹھیک ہوجائیگا! ہم خوشحال ہونگے، ہمیں بنیادی ضروریات اور حقوق مِلیں نگے۔ لیکن افسوس آج تک ایسا نہیں ہوا اور جب تک ہم ہندسوں کے بدل جانے پر اِس طرح مبارک بادیاں اور نام نہاد خوشیاں مناتے رہیں گے تب تک اسی مقام پر رہنگے؟ اور جس دن ہم خوشحال اور فکری طور آزاد ہونگے اُ سِ دِن حقیقی معنوں میں ہمارا نیا سال شروع ہوگا ۔ اُس وقت ’’ خوشی اور مبارک باد‘‘ کے الفاظ ہمیں ذیب دینگے۔