وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے بدھ کو گلگت بلتستان کی نگران کابینہ میں 7 نئے وزراء کی شمولیت کی منظور ی دینے سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں نگران حکومت کا قیام علاقے میں قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں منعقد کرانے کی غرض سے نہیں بلکہ آئندہ انتخابات اپنی جماعت کے امیدواروں کیلئے کامیابی کی راہ ہموار کرنے اور عوامی حلقوں کی جانب سے ملنے والی شدید رد عمل کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں لایا ہے۔
نگران کابینہ کیلئے چند روز قبل چنے جانیوالے وزراء میں سے بھی اکثریت کا تعلق سیاسی جماعتوں سے تھا جبکہ گزشتہ روز مذید 7 وزراء میں سے بھی بیشتر کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہی ہیں۔ نئے لئے جانیوالے وزراء میں غذر سے علی مراد پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور حلقہ این اے 21 یاسین سے آئندہ انتخابات کیلئے مظبوط امیدوار تھے، جن کے نگران کابینہ میں شمولیت سے پی ٹی آئی آئندہ الیکشن میں ایک مضبوط سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ دیگر وزراء میں سے فداحسین زیدی، بشارت اللہ اور زوار قلب علی مسلم لیگ(ن)جبکہ عطااللہ کا تعلق جماعت اسلامی سے بتایاجارہا ہے۔
اس طرح کے چناو سے شفاف انتخابات مشکوک بن سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شائید اس خوش فہمی میں رہ کر ضرورت سے زیادہ وزراء کو نگران کابینہ کا حصہ بنالیا جس سے آئندہ الیکشن کیلئے انکی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوجائینگی۔ لیکن صورتحال اس کے برعکس جانے کا امکان ہے۔
دوسری جانب محض تین ماہ کے عرصے کیلئے بارہ رکنی نگران کابینہ کی تشکیل علاقے کی کمزور ترین معاشی حالت کو مذید بحران اور تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے۔ جس سے نہ صرف علاقے کا ترقیاتی عمل متاثر ہوسکتا ہے بلکہ الیکشن کے انعقاد کیلئے درکار وسائل کے حوالے سے خود نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہیں۔
وفاقی حکومت مسلم لیگ (ن)کی صوبائی قیادت ،اسٹبلیشمنٹ اور دیگرسیاسی جماعتوں اور بااثر حلقوں کی غیر ضروری سفارشوں پر ضرورت سے زیادہ وزراء لینے کی بجائے ڈویژنل کوٹہ سسٹم کے تحت ہر ڈویژن سے ایک ایک نگران وزیر کا چناو عمل میں لاتے تو آج نہ ہی پہلے سے مسائل میں گرے ہوئے علاقے پر مذید بوجھ پڑجاتا اورنہ ہی حکمران جماعت کو عوامی، سیاسی و مذہبی حلقوں کی جانب سے اس قدر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔