انتہاپسندی کسی بھی شکل میں ہو معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے اور معاشرتی اور سماجی استحکام کو ہمیشہ متاثر کرتی ہے۔ انتہاپسندی کی مختلف تعریفیں ہیں، کسی بھی معاملے میں اپنی رائے کو حتمی سمجھنا، اپنے فیصلوں پر کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہیں کرنا، اپنے موقف پر ڈٹے رہنا اورکسی کی رائے کو اہمیت نہیں دینا چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر اپنے ذاتی خیالات، فیصلے، مشاہدات، تصورات اور عقائد کو دوسروں پر اس طرح مسلط کرنا کہ مفاہمت اور سوال کرنے کا اختیار ہی نہ رہے۔
انتہاپسندی کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں، ان میں مذہبی انتہاپسندی، لسانی انتہاپسندی، لسانی و علاقائی انتہاپسندی، نسلی و صنفی انتہاپسندی اور سیاسی انتہاپسندی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی کے تمام پہلووں میں کسی بھی حد سے تجاوز کر کے اپنے تعلق کو اہمیت دینا انتہاپسندی کے زمرے میں آتے ہیں۔
جب ہم انتہاپسندی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی ہی اس کی ایک قسم ہے اور دیگر قسموں کے بارے میں سوچنے اور ان کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ حالانکہ انتہاپسندی کے دیگر اقسام بھی معاشرے کی ترقی و مفادات کے لئے اتنا ہی نقصان دہ ہیں جتنا کہ ہم مذہبی انتہاپسندی کے نقصانات کا واویلا کرتے ہیں۔
مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت کاروائی کرنے کے لئے تمام طبقاتِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ یک زبان ہیں، یہ اچھی بات ہے ، مگرسوال یہ کہ ان سیاسی انتہاپسندوں کے خلاف کاروائی کون کرے گا، ان کے لئے ایکشن پلان کون بنائے گا؟ یہی وہ لوگ ہیں جو سیاست کے نام پر ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں اور باری باری ایوانِ اقتدار میں آکر عوام کے وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں۔ بظاہر تو ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بیانات دیتے پھرتے ہیں لیکن اندرونی طور پر چھوٹے بڑے بھائی ہیں۔
گلگت بلتستان کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات چند مہینوں میں متوقع ہیں، اس میں علاقائی پارٹیوں کے علاوہ پاکستان کی بڑے سیاسی پارٹیاں حصہ لینے کے لئے سیاسی جوڑتوڑ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ اس سے قبل نگران کابینہ کی تشکیل میں جس قدر پسند اور ناپسند کی بنیاد پر وزراء کی فوج بھرتی کی گئی اس میں بھی عام خیال کے مطابق سیاسی مفادات شامل ہوسکتی ہیں اور مستقبلِ قریب میں الیکشن کی شفافیت پر بھی اس کے برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اہل دانش کا خیال یہ ہے کہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سیاسی ، علاقائی اور دیگر مفادات کے پہلووں کو پسِ پشت ڈال کر چند تعلیم یافتہ، تجربہ کار، تمام حلقوں کے لئے قابل قبول اور سب سے بڑھ کر غیر سیاسی لوگوں کو نگران کابینہ میں شامل کیا جاتا۔ تاکہ اس نوزائیدہ صوبہ کی معشیت پر بوجھ بنتے اور نہ ہی وزراء کی اس کثیر تعداد پر بجٹ کا کثیر حصہ پروٹوکول اور دیگر آسائیشات پر خرچ ہوجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں پر وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں تو کہیں کابینہ میں حصہ نہ ملنے پر احتجاج ۔
سیاست ایک منافع بخش کاروبار کی مانند نظر آرہی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ شیئر حاصل کرنے کے لئے ہم خیال لوگوں کی گروہ مختلف پارٹیوں کے بھیس میں ہر جائز و ناجائز ہتکھنڈے استعمال کرتے ہیں، چاہے دوسرے نظریاتی گروہوں کی پگڑیاں ہی کیوں نہ اچھالنے پڑے۔
اس کاروبار میں اس گروہ کو زیادہ کامیاب مانا جاتا ہے جو عوام کو بے وقوف بناکر ان سے ووٹ نکلوانے میں سب سے زیادہ مہارت رکھتا ہو۔ کیونکہ جتنا زیادہ ووٹ ملے گا اتنے ہی سرکاری خزانے پر اس گروہ کی گرفت مضبوط ہوگی۔ اس لئے الیکشن سے قبل اور خاص طور پر الیکشن کے دنوں میں پارٹی کے عہدہ داراں اس بات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ ان کے قول و فعل سے کسی ووٹر کی دل آزاری نہ ہو اور ایسے شریف الطبع بن جاتے ہیں کہ اکثر ان کے دوست، محلہ دار اور حتی کہ گھر والے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔
ووٹر کی جتنی عزت و احترام الیکشن کے دنوں میں ہوتی ہے وہ بعد کے پانچ سالوں میں کبھی نہیں ہوتی۔ مگر جوں ہی الیکشن کی گہما گہمی ختم ہوجاتی ہی۔ اقتدار کی کرسی پر براجماں ہونے کے بعد اپنی شخصیت سے شرافت، ایمانداری ، انصاف اور اور خلوص نام کی چیزوں کو آئیندہ الیکشن تک ختم کر کے اقرباء پروری، رشوت خوری اور تکبر کو جگہ دیتے ہیں۔
ہم نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو جیتنے کے بعد الیکشن کی مہم چلانے والے کارکنوں کو پہچانتے بھی نہیں، الیکشن کے دوران کی گئی اخراجات جس میں ہوٹل کے بل، گاڑیوں کے کرائے وغیرہ شامل ہیں،ان کی ادائیگی تو دور کی بات ہے۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جواپنی ذاتی خزانوں کو بھرنے اور سرکاری خزانے تک پہنچنے کے لئے غریب عوام کو بے وقوف بنا کر ان کا سہارا لیتے ہیں۔ یا تو اس کے لئے مسلک کا استعمال کیا جاتا ہے یا زبان، علاقہ اور نسلی بنیاد پر لوگوں کے جذبات سے کھیل کر ان کے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام ایسے آنے والے الیکشن میں ایسے امیدوارں کے ساتھ تعاون کرے جن کا تعلق معاشرے کے متوسط طبقے سے ہو اور عوام کے لئے درد رکھتا ہو۔ یہ پرانے مگرمچھ چاہے جتنا ہی علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کی باتیں کرتے ہیں ان کا بنیادی مقصد ذاتی مفاد، پارٹی میں اپنے لئے جگہ بنانے، پارٹی کے بڑے نوسرباز جو چوہدری، میاں، زرداری، بھائی اور خان بن کر مرکز میں بیٹھے ہیں، ان کو خوش کرنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔
ووٹ کے بہتر استعمال سے ہی ان مفاد پرستوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور یہی ان کے خلاف ایکشن پلان ہے۔ ورنہ ایک چور جائیگا تو دوسرا آئیگا۔