حقوق نسواں
تحریر:مہرین میر
دنیا کے حسین خیالات بھی نہ ہوتے
اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہو تی
ٓٓآج کی اس دنیا میں جہاں انسانوں کے حقوق کی بات ہورہی ہے وہاں قدم قدم پر انہیں حقوق سے انسانوں کو محروم رکھا جا رہا ہے لوگ آج جن حقوق کی بات کرتے ہیں وہ آج کے دور کی بات نہیں ہے یہ درس تو آج سے چودہ سو سال قبل دیا گیا تھا ۔
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر فرداں نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
بد قسمتی سے آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی حقوق نسواں کی پا مالی اور بے حرمتی بڑے زور و شور سے جاری ہے ۔دور حاضر میں خواتین کا ہر سطح پر ہر لحاظ سے استحصال اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ان فرسودہ تعلیمات اور روایات کو آج بھی اپنے سینے میں سائے ہوئے ہیں جو کہ ہمیں ہمارے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ملی ہے اور جو زمانہ جاہلیت کا حصہ بھی ۔اب زرا ظہور اسلام سے قبل عرب معاشرے کا رخ کرتے ہیں ۔ظہور اسلام سے قبل عرب معاشرے میں عورت کو باعث زلت سمجھا جا تا تھا چنانچہ انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جا تا تھا لیکن اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے واضح طور پر اعلان کیا کہ عورت نہ مرد کی ملکیت ہے اور نہ ہی غلام ہے ۔اگر مردوں کے عورتوں پر کچھ حقوق ہیں تو عورتوں کے بھی ان پر کچھ حقوق ہیں اور ان حقوق کو نہ کوئی غضب کر سکتا ہے اور نہ ہی ان میں ترمیم کی جا سکتی ہے ۔
ارشاد ہے !
’’مردوں کے عورتوں پر کچھ حقوق ہیں اور عورتوں کے مردوں پر بھی کچھ حقوق ہیں‘‘
اب زرا مغربی ممالک کی طرف نظر دوڑاتے ہیں اگر مغربی ممالک میں دیکھا جائے تو اس معاشرے میں مردو زن کی تفریق کے بغیر آزادی کا تصور موجود ہے ۔مگر صدا افسوس کہ یہاں معاشرہ جس کو یہ درس آج سے چودہ سو سال قبل دیا گیا تھا ۔مگر یہ آج تک اس میں کافی حد تک نا کام ہے ۔ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جا تا ہے جب بچی پیدا ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں یہ تصور بیٹھایا جا تا ہے کہ ماں باپ کا گھر اس کا اپنا گھر نہیں ہو تا ۔جوانی پر آتے گھر کے احساس سے گزر جاتی ہے شادی کے بعد شوہر کا احساس دلاتا ہے کہ تین الفاظ اس کا مقدر ہے اوریہ گھر اس کا اپنا گھر نہیں ۔ایک معاشرے میں جہاں انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جا تا تو وہاں ان کے حقوق کی پاسداری کو ن کرے گا ۔اور کیسے انہیں ان کے غضب کئے ہوئے حقوق ملیں گے ۔سچ بات تو یہ ہے کہ انہیںیہ حقوق ملتے ہی نہیں ۔
یو این کی تحقیق کے مطابق 80 فیصد خواتین اپنے مجازی خدا کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے پچھلے دنوں صوات ومیں ہونے والے افسوسناک واقعے کا علم ہم سب کو ہے وہاں ایک بے گناہ اور لاچار لڑکی پر صرف اسی وجہ سے کوڑے برسائے گئے کہ اس نے ایک فرسودہ نظام کی خلاف ورزی کی تھی ۔صرف سندھ میں 80 فیصد آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے جہاں وہ وڈیروں اور چوہدریوں کے ظلم و ستم کا شکار ہے ۔انہیں وہاں تعلیم جیسی نعمت سے محروم رکھا جا تا ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق عورت کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہے بے حیائی ہے جبکہ عورت کے متعلق ہمارے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں ۔
’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
’’اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں‘‘
لفظ عورت کیا ہے ؟زرا غور کیجئے
لفظ عورت چار حروف کا مجموعہ ہے یعنی ع سے عشق و سے وجود س سے رحمت اور ت سے تعظیم یقیناًاگر دیکھا جائے تو عشق کا وجود تعظیم عورت ہی ہے ۔عورت جو دنیا میں ماں کا درجہ رکھتی ہے ماں کا درجہ عظیم اول ہے تاریخ کے اوراق گردانی کرنے سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ حضرت عیسی ؑ کی پیدائش بغیر باب کے حضرت مریم ؑ سے ہوئی لہذا یہی فطری عمل اورتاریخی ثبوت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ایک عورت کی نگہداشت سے فیض حاصل کر کے پوری دنیا میں ایک مسیحا کے لقب سے پکار ے جاتے ہیں ۔
آپؐ نے حقوق نسواں متعین کرتے ہوئے باپ کو بتایا کہ بیٹی کا وجود اس لئے ہپر گز ننگ و عار نہیں لڑکی کی پرورش اور حق رسانی باپ کو جنت کا مستحق بناتی ہے ۔شوہر کو بتایا کہ نیک بخت بیوی ایک شوہر کیلئے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہے ۔بیوی شوہر کے گھر کی مالکہ ہے تم میں بہترین شخص وہ ہے جو بیوی سے حسن سلوک سے پیش آتا ہے ۔بیٹے کو بتایا کہ خدا اور رسول کے بعد سب سے زیادہ قابل احترام اور حسن سلوک کی مستحق اس کی مالا ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا
ترجمہ! ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔
علاوہ ازیں آپؐ نے اخلاقی ہدایت کے ساتھ عورت کو قانونی معاشی حقوق کا بھی مستحق قرار دیا ہے ۔وراثت میں عورت کو نہایت وسیع حقوق دئیے۔چنانچہ باپ سے شوہر سے اولاد سے اورقریبی رشتہ داروں سیعورت کو باقاعدہ وراثت ملتی ہے اسی طرح حضورؐ نے عورتوں کو دینی اور دینوی علوم حاصل کرنے کی بھی پوری آزادی دی تا کہ وہ معاشرے میں مردوں کے برابر فرائض زندگی ادا کر سکیں ۔عورتوں کے ازدواجی اور انفرادی حقوق کی حفاظت کا خیال آپؐ کو آخری دم تک رہا ۔جب عورت کا وجود اتنی اہمیت کا حامل ہے تو پھر زرا غور کیجئے کہ کیا ہم عورت کے مقام کو آج تک سمجھ پاتے ہیں وہ ماں جس کی خدمت کی عوض ہمارا دین اسلام ہمیں جہاد اور حج کا ثواب دے رہا ہے کیا ہم آج اس ماں کو وہ حقوق دے پا رہے ہیں جو ہمیں دینے چاہئے ۔یقیناًہمارا جواب نفی میں ہو گا ۔کہتے ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ضرورہو تاہے ۔بقول نپولین!
’’تم مجھے اچھی مائیں دور میں تمھیں اچھی قوم دونگا ‘‘
آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے طبقات ایسے ہیں جو اسلام کے نام پر خواتین کو چار دیواری میں قید رکھتے ہیں اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں عورتوں کی صرف گھروں تک محدود رکھنا معاشرے کو اندھیرے میں رکھنے کا مترادف ہے ۔
بقول مرزا اکبر آبادی!
فرض عورت یہ نہیں چار دیواریکی قید
ہو اگر قید نظر اور خود داری کی قید
آج اگر معاشرتی مدو جز میں عورت کی حیثیت اور اس کا مقام بر قرار رکھا جائے تو معاشرہ کبھی بھی غربت کے شکنجے میں نہیں پھنسے گا بلکہ ہمیشہ ترقی کی راہ میں گردش کرے گا اور جہاں تک ممکن ہو ہر میدان میں بغیر تفریق کے عورت کو مردوں کے برابر شریک دیکھنا چاہئے کیونکہ یہی راز ایک بہتر معاشرے کو جنم دے سکتاہے ۔