کالمز

افطاری

شکیل کی ماں کو روزہ لگتا تھا۔ شکیل ایک سال کا تھا کہ اس کا با پ مر گیا ۔ ماں تھی کہ اس کو چھور کر کہیں نہیں گئیں ۔ قسمت میں بیوگی تھی بیوگی کو قبو ل کیا۔ شکیل کا ابو اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک جھونپڑی نما گھر میں رہتا تھا ۔ شوہر کے بعد ساس سسر hayatشکیل کی ماں کے سہارے تھے دونوں جلد چلے گئے۔ اب شکیل کی ماں بیٹے کو سینے سے لگا ئے رہنے لگی۔ اب شکیل دوسری جماعت کا طالب علم تھا ۔ زندگی کی گاڑی کسی نہ کسی طریقے سے چل رہی تھی ۔رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان آگیا ۔ لوگوں کے دسترخوان فراخ ہوگئے ۔انواع واقسام کے کھانوں سے لوگوں کے دسترخوان بھرنے لگے ۔ ایک دوسرے کو افطاری دینے لگے ۔باورچی خانوں میں ہل چل ہونے لگی ۔مگر لوگوں کو پتہ نہ ہوتا کہ کن کن گھروں میں زندگی رک گئی ہے۔ کیونکہ اُنکے احساسات مرچکے ہوتے ہیں ۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہے۔ امیر نظر آتا ہے ۔ اپنا آپ نظر آتا ہے ۔ چمکتی گاڑی نظر آتی ہے ۔عالیشاں گھر نظر آتا ہے ۔مگر راہ چلتے مجبور نظر نہیں آتے ۔ جھونپڑیا ں نظر نہیں آتیں ۔ کن کن گھروں میں بے وقت چولہا بجھ جاتا ہے کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ چاہئے تھا کہ حکمرانوں کے گھروں میں بجلی نہ ہوتی ۔تو ان کو اندھیروں کا احساس ہوتا ان کو روزہ لگتا ۔ پیاس لگتی ۔ ٹھنڈی شربت نہ ہوتی ۔ پائپوں میں پانی اُبلتا ہوا آتا ۔ گرمی کی شدت سے وہ بلبلا اٹھتے ہونٹ خشک ہوتے ۔ چہرہ زرد ہوتے ۔ آنکھوں کے ارد گرد سیاہ حلقے ہوتے ۔ معمولی سی ٹریمچر بھی ہوتی ۔ تب ان کو احساس ہوتا کہ زندگی کی جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے۔

ائر کنڈیشنڈ محلوں کے اندر زندگی زندگی نہیں ہوتی ایک تماشا ہوتی ہے۔ اس میں دنوں ، راتوں اور لمحوں کا حساب کتاب نہیں لگا یا جاتا ۔ کیونکہ لمحے کاٹ کے نہیں گذرتے ۔۔۔

شکیل کی ماں کو روزہ لگتا تھا ۔ عصر کے وقت سوکھ کر نقطہ بن جاتی تھی ۔ اس کے ہونٹ سوجھ جاتے تھے ۔ زبان تالو سے چھپک جاتی تھی ۔ چولہے میں کالی نمک چاے پک رہی ہوتی ۔ ایک چپاتی ساتھ رکھی ہوئی ہوتی ۔ وہ باور چی خانے کی دیوار سے ٹیک لگا کے اونگھ رہی ہوتی ۔شکیل تڑپ اٹھتا ۔ وہ سب کچھ جانتا تھا ۔ لیکن یہ نہیں جاتنا تھا کہ یہ صبر کا امتحان ہے۔ ماں جی صبر کا پیپر حل کر رہی ہے ۔ رمضان سے پہلے وہ سکول سے آتے جاتے لوگوں کو دکانو ں میں بیٹھ کر ٹھنڈی شربت کی بوتلیں پیتے دیکھتے تھے ۔ سکول میں ساتھیوں کوایروسیٹ پوڈر خرید کر شربت بنا کر پیتے دیکھتے تھے ۔ اس کے پاس پیسے ہوتے تو اپنی ماں کے لئے ٹھنڈی شربت خرید کے لاتے ۔۔۔۔

شکیل کو پتہ نہ تھا کہ فلاحی معاشرے میں ایثار و قربانی کے ثمرات ہوتے ہیں ۔ لوگ دوسروں کے لئے جیتے ہیں، مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ۔ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہوتی ہے ۔ وہ دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہے ۔اور خوش دیکھ کر کھکھلا اٹھتی ہے ۔ ان کے پاس حقوق کی لسٹ ہوتی ہے ۔ ہمسایوں کے حقوق مسافروں کے حقوق ،غریبوں اورمجبوروں کے حقوق، سب کے حقوق متعین ہوتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی دسترخوان سے ٹھنڈی شربت کی بوتل خود بخود شکیل کی ماں کے ہاں پہنچ جاتی ۔۔۔

محلوں کے اندر بے شک روشنی ہے مگر باہر اندھیرا ہے ۔ چراغوں کو راستوں میں جلنی چاہئیں ۔اگر محلوں کے اندر فانوس بھی جلیں تو کیا فائدہ ۔مسکراہٹیں جھونپڑیوں میں ہونی چا ہئیں ۔محلوں کے اندر قہقہے بے سود ہیں۔ شرف انسانیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے ۔ایسا نہیں کہ ایک کا دسترخوان انواع واقسام کے کھانوں سے بھر جائے اوردوسرا نوالے کو تر سے۔ آج شکیل تہیہ کرکے گھر سے نکلتا ہے کہ وہ اپنی پیاسی ماں کے لئے ضرور شربت لائے گا ۔ راستے میں محلے کے دو ساتھی ملتے ہیں ۔ ان کی مٹھیوں میں پانچ پانچ سو کے نوٹ ہیں ۔ افطاری لینے جارہے ہیں ۔ شکیل ساتھ ہوتا ہے ۔ اس کی آنکھیں کھبی ان نوٹو ں پر کبھی ان کے چہروں پہ ٹکتی ہیں ۔ وہ ساتھ ہوتا ہے ۔ پوچھنے پر کہتا ہے کہ اس کی ماں کو آج شدت کی پیاس ہے۔ وہ اس کے لئے شربت لینے نکلا ہے۔ پوچھتے ہیں ۔ پیسے ہیں ۔ کہتا ہے پیسے نہیں ہیں ۔ وہ ہنستے ہیں ۔۔۔شکیل کہتا ہے کہ تم افطاری کے لئے کیا خرید و گے ۔۔۔بچے کہتے ہیں ۔ ہم کولڈڈرنکس کی ٹھنڈی بوتلیں ، برف ، گلاجامو ، شکر پارہ ، دہی ، کجور اور اپنے لئے آئس کریم بھی خریدیں گے ۔ شکیل کا دل دھکنے لگتا ہے ساتھیوں کی خوش قسمتی پر وہ ٹرپ اٹھتا ہے ۔ ان کے ساتھی اپنی دنیا وں میں مگن ہوتے ہیں ۔ جب وہ بر ف فروش کے پاس پہنچتا ہے تو اس کا دل باربارچاہتا ہے کہ وہ برف والے سے کہدے کہ تھوڑی برف دے دے۔ میری ماں آج پیاس سے بے حال ہے ۔مگر کوئی طاقت ہے جو اس کو مانگنے سے روکتی ہے ۔ اتنے میں برف کا ایک ٹکڑا بر ف فروش کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر گرتا ہے ۔ شکیل فوراً اس کو میز پر رکھنے لگتا ہے ۔ جہاں پر برف رکھی ہو ئی ہوتی ہے۔ برف فروش جھڑک کر کہتا ہے کہ پھینک دو کیا کر رہے ہو؟۔۔۔ شکیل کو گو یا سا ری دنیا کی دولت مل جا تی ہے ۔ وہ برف فروش سے کہتا ہے چچا یہ میں لے لوں۔۔۔ برف کا ٹکڑا مٹی میں لت پت تھا ۔ برف فروش بڑی لا پر واہی سے کہتا ہے۔ لے لو۔۔۔ شکیل یہ مٹھی میں لے کے گھر کی طرف دو ڑتا ہے۔ برف کی ٹھنڈک سے اس کا ہا تھ یخ ہو گیا ہے۔ اس کے سا رے بدن میں ایک سرور سرائت کر گیا ہے۔ وہ اپنی پیاسی ماں کی پیا س بجھانے میں کامیا ب ہو جا ئے گا۔ راستے میں ایک جگہ ٹھو کر لگی ۔گرا۔کہنی زخمی ہو ئی۔مگر برف کے ٹکڑے کو چھوٹنے نہ دیا۔ اٹھا اور دوڑنے لگا۔دور سے چیختے چیختے گھر میں داخل ہو ا۔ ماں تمہارے لئے برف لا یا ہوں ۔ ماں نے بیٹھے بیٹھے با ہیں پھیلادی ۔ اس نے مٹی میں لت پت برف کا ٹکڑا ماں کے ہا تھ میں رکھ دی۔ اور کہا کہ ابھی گلاس میں پانی لا تا ہوں ۔ پیاسی ماں نے کہا ۔ماں کی جان یہ برف فروش کی اجازت سے لایا ہے کہ نہیں ۔ماں اس نے دے دی ۔ ۔۔۔برف کا ٹکڑ ا پانی میں گھل گیا ۔ برف میں شامل مٹی پانی میں شامل ہو گئی ۔ شکیل کی ماں کے ہاتھ میں گدلا ٹھنڈا پانی کا گلاس تھا ۔ وہ اذان کی آواز کا انتظار کرنے لگی۔ اذان سے پہلے ہی اس کی مامتا کی پیاس شکیل کی آنکھوں میں اتری مسرت سے بجھ گئی تھی اور ملک خداداد کے اس گھرمیں بھی روزہ افطار کیا گیا ۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button