گلگت بلتستان آئینی جمود کی کیفیت میں
پاکستان پیپلزپارٹی گلگت کے زیراہتمام اتوار کو منعقدہ آل پارٹیز کانفرس میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کی بات آگئی تو مجھے رکن قانون ساز اسمبلی نواز خان ناجی صاحب کی وہ بات یاد آگئی کہ مہدی شاہ کے دور حکومت میں ہم نے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کے لئے تین مرتبہ اسمبلی سے قراردادیں پاس کرکے میٹھائیاں بھی تقسیم کی،اب پھر کونسی حیثیت کی بات کرینگے۔
کمال کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی والے گزشتہ انتخابات میں اپنی بدترین شکست کے بعد علاقے میں پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو پھر سے زندہ رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانے تلاش کرکے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ورنہ خلوص نیت اور ایمانداری کے ساتھ اگر وہ وفاق اور گلگت بلتستان میں اپنی جماعت کے دور حکومت میں خطے کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے اس طرح کا کوئی اقدام اٹھاتے تو ابھی تک ہوسکتا تھا کہ اس مسلے کا کوئی نہ کوئی حل تو نکل آچکا ہوتا۔ کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گلگت بلتستان کو آج تک تھوڑے بہت حقوق ملے وہ پیپلز پارٹی ہی کے دور حکومت میں ملے ہیں،مگر ان حقوق اور اختیارات سے استعفادہ حاصل کرنے میں ناکامی بھی اسی جماعت کے ناہل لوگوں کی وجہ سے ہی ہوئی۔باوجود اس کے سوائے دو چند جماعتوں کے، باقی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کو ایک پیچ پر جمع کرکے حقوق کے حصول کی بات کرنا امجد حسین ایڈووکیٹ کا ایک جرات مندانہ اقدام ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے ایجنڈے کے نکات بہت دلچسپ تھے، جن میں سرفہرست میں’’لمبو اسٹیٹس آف گلگت بلتستان‘‘،دوسرے نمبر پر اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کی نمائندگی،تیسرے پر وفاق کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام سے غیرقانونی ٹیکسوں کی وصولی اور چوتھے نمبر پر آزاد جموں وکشمیر یا مقبوضہ کشمیر طرزکا سیٹ اپ دینے کے مطالبات شامل تھے۔مطالبات تو انتہائی توجہ طلب تھے مگر بدقسمتی سے کسی بھی موضوع پر کوئی سیرحاصل بحث یا گفتگو دیکھنے یا سننے کو نہیں ملی۔ وہ اس لئے کہ جب شرکاء محفل کو’’لمبو اسٹیٹس‘‘ کا ہی علم نہ ہو تو بات کیسے آگے بڑھے گی؟بہت سارے مقررین نے اسٹیج پر آکر اصل موضوعات پر لب کشائی کی بجائے پاکستان سے اپنی وفاداری اور محب وطن شہری ہونے کے دلائل پیش کرتے رہے تو کانفرنس کا اصل مقصد وہی پر ہی فوت ہوگیا۔کیونکہ جب یہ خطہ پاکستان کا حصہ ہے تو پھر متنازعہ حیثیت کو جدید انداز میں پیش کرنے کے لئے ’’لمبو اسٹیٹس‘‘ لکھنے یا کہنے کی کیا ضرورت تھی؟یا پھر واقعتا یہ خطہ پاکستان کا آئینی حصہ ہی ہے تو پھر چند روز قبل سکریٹری خارجہ کی جانب سے اخبارات میں یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ” گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں،یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے”۔یا پھر وزیراعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف کی جانب سے الیکشن سے قبل گلگت میں ایک پرہجوم عوامی اجتماع سے خطاب میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کے اس اعلان کی کیا ضرورت تھی؟خیر اس موضوع کو اگر چھیڑا جائے تو ایک لمبی داستان رقم ہوجائیگی اسی لئے اس کو یہی پر ہی سمیٹ کراے پی سی کے ایجنڈے کے دیگر نکات پر خامہ فرسائی کرلیتے ہیں۔
آل پارٹیز کانفرنس کے ایجنڈے کادوسرا نکتہ اقتصادی راہداری تھا، جس کے تحت گزشتہ برس پاکستان اور چین کے مابین کم وبیش 46ارب ڈالرکے51منصوبوں پرمعاہدہ ہوا ، جن میں سے نصف منصوبوں پرکام کرنے کے سلسلے میں معاہدوں پر باضابطہ دستخط بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں کہیں پر بھی گلگت بلتستان کا کوئی ذکر موجود نہیں۔حالانکہ اقتصادی راہداری کا مین حب ہی گلگت بلتستان ہے،جو شاہراہ قراقرم کے راستے خنجراب کو گوادراے ملاتی ہے۔
اے پی سی سے اپنے خطاب میں پیپلز پارٹی کے رہنماء ظفر اقبال نے یہ بات تو فخر سے کہہ دیا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ پیپلز پارٹی کے سابق دور میں شروع ہوا ،لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ انکی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے سابق صدر آصف زرداری کے ہمراہ چین کے دورے پر بلاول بھٹوزرداری کے ساتھ تصویر کھینچواکر دلی خواہش پوری کرنے کے سوا اور کوئی کچھ نہیں کیا ۔ اگر یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کی کوششوں کا نتیجہ تھا تو پھر اس وقت کی صوبائی حکومت نے اقتصادی راہداری میں شراکت داری کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ کیا بلاول کے ساتھ فوٹوبنوانے سے اقتصادی راہداری میں حصہ داری کا مطالبہ کرنا کوئی کم اہم بات تھی؟
رہی بات وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام سے غیر قانونی ٹیکسوں کی وصولی کی، تویہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کی مہربانی ہے۔ پیپلز پارٹی کے جہاں زوالفقار علی بٹھو جیسے لیڈران نے خطے کے عوام کو ایف سی ار کے کالے قوانین سے چٹکارہ دلاکر مختلف قسم کی اشیاء خوردونوش پر سبسڈی کا تحفہ دیا وہاں اسی پارٹی کے ہی راجہ پرویز اشرف جیسے حکمرانوں نے خطے کے عوام پر ٹیکس نافذ کرنے کے احکامات بھی صادر کئے، جس کے دستاویزی ثبوت چند روز قبل مقامی اخبارات میں شائع بھی کئے جاچکے تھے۔تو پھر پیپلز پارٹی والے اس میں کس کو موردالزام ٹھہرانا چاہتے ہیں؟ہاں بات اگر وفاق اور گلگت بلتستان کے درمیان مفادات کی سردجنگ کی ہورہی ہے تو پھر اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی مرکزی وصوبائی قیادت برابر کی شریک ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گلگت بلتستان کو سلف گورننس آرڈر 2009کے زریعے تھوڑے بہت اختیارات دئیے گئے تو خطے کی متنازعہ حیثیت کو پس پشت ڈال کرخود ہی یہ کہنے لگے کہ گلگت بلتستان صوبہ بن گیا، پھر جب حکومتی خرچے پر موج مستیاں ختم ہوئیں تو’’لمبو اسٹیٹس‘‘ کا رونا دھوناکیوں؟
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم وفاق اور گلگت بلتستان میں جب کوئی پسند کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو ذاتی مفادات کا حصول اور وفاقی حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے سب کچھ ٹھیک کہہ کر خوشیاں مناتے ہیں اور حکومت ختم ہونے پر کچھ نہیں مل رہا ہے کا رونا رونے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ مسلم لیگ نوازکی صوبائی قیادت نے بھی تو کچھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا۔ان کی جانب سے اقتدار میں آنے سے قبل یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان کی جماعت گلگت بلتستان کو وفاق کی چھٹی کائی سمجھتی ہے ۔پھر خطے کے عوامی مطالبات کی ایک لمبی فہرست بھی تیار کی گئی، مگر جب اقتدار کا نشہ چڑھ گیا تو سب کچھ بھول کر عوام کو دلاسے دینا شروع کردیا کہ آئینی حیثیت کے تعین کے لئے تو سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی کام کررہی ہے۔ یہ بات تو سب کے علم میں تھی کہ وزیراعظم کے اعلان روشنی میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے تعین کے لئے کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے۔ لیکن بعد میں میڈیا کے تواسط سے پتہ چلا کہ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کمیٹی بنی ہی نہیں۔ مان لیتے ہیں کمیٹی بنی ہی سہی ،تو کیااس میں گلگت بلتستان کا بھی کوئی نمائندہ شامل ہے؟کیا ایک چھوٹے سے مسلے کے حل کے لئے پانچ ماہ تک کمیٹی کا تعین نہ ہونا اور اگر کمیٹی قائم ہوئی ہے تو سفارشات تیار نہ کرنا تعجب کی بات نہیں؟ویسے بھی کمیٹی نے کرنا کیا ہے، وہی جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کیا گیا تھا، بس چند صفحات بھر لئے اور سپریم اتھارٹی سے منظور لیکر کہے ،یہ لو جی تمہارانیا قانون۔ پھر برسوں تک احسان جتنا کہ ہم نے آپ لوگوں کو بااختیار بنادیا، جیسا کہ پیپلز پارٹی والے70کی دہائی سے احسان جتاتے آئے ہیں۔
میں ذاتی طور پر سکریٹری خارجہ کے حالیہ بیان سے مکمل اتفاق ہی نہیں بلکہ تائید بھی کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے اور کچھ نہیں تو کم ازکم سچ توبھول دیا ۔اسی طرح کا ایک بیان اس سے قبل وفاقی وزیر پرویز رشید نے بھی دیا تھا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھی اس خطے کی حیثیت متنازعہ ہی ہے۔ ان بیان پر ہمارے پیٹ میں مروڑ اس لئے شروع ہوتاکیونکہ سچی بات ہمیشہ کڑوی لگتی ہے اور ہم وفاقی حکمرانوں کی جھوٹی باتوں پر یقین رکھنے کے عادی ہیں۔ کیا یہ ہماری منافقت نہیں کہ وفاق کی جانب سے اگرکوئی خطے کو متنازعہ قرار دے تو یک دم آگ بگولہ اور خود لفظ ’’متنازعہ ‘‘کوجدید ٹرم میں استعمال کرکے’’لمبو اسٹیٹس‘‘ کانام دیکر حقوق سے محرومی کا رونا رونا؟؟