گورنر کے احکامات بھی ہنزہ کواندھیرے سے نہیی نکال سکا
ہنزہ (اکرام نجمی) گزشتہ دنوں گورنر گلگت بلتستان نے محکمہ برقیات کے اعلی حکام کو ہنزہ میں بجلی کے لوڈشیڈنگ کو کم کرنے کے احکامات کے باوجود ہنزہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کا کوئی آثار نظر نہیں آرہا۔ سردی کے شدت میں اضافہ اور بعض پرائیویٹ سکولوں کے امتحانات ہونے کی وجہ سے طلبا ء و طالبات متاثر ہورہے ہیں ۔
نہ صرف طلباء و طالبات بلکہ ہنزہ کے کاروباری حضرات بھی بری طرح متاثر ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہنزہ کے دو اہم کاروباری مراکز علی آباد بازار اور کریم آباد بازار میں موجود کاروباری حضرات کا کہناتھا کہ انکا کاروبار بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے تقریبا ختم ہورہے ہیں۔ مختلف بینکوں سے قرضے لیکر کاروبار کا آغاز کیا تھا اب ہم مقروض ہورہے ہیں ۔
گھریلو صارفین اور خاص کر خواتین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر بجلی کا یہ حالت رہی تو خواتین احتجاج پر مجبور ہونگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بجلی کے کنٹرول کے نام پر فیوز لگانا بلکل قابل قبول نہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے مصنوی طریقے اپنا کر آج عوام کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ماضی میں فیوز اور لوڈ کنٹرول کے نام پر لوگوں سے جرمانے وصول کیا گیا ہے جو غیر قانونی اور کرپشن کے مترادف ہے۔ ہمارے بچے سکول جارہے ہیں انکے کپڑوں کو استری تو ہر حال میں کرنا پڑتا ہے، ہاں البتہ گیزر اور دیگر بڑے اوزار کو لوگ خود رضاکارانہ طور پر استعمال نہ کرے انکا نے مزید کہا تھاکہ غریب کے پاس نہ گیزر ہوتا ہے اور نہ بڑے اوزار اگر فیوز لگانا ہے تو امیروں کے گھروں پر لگانا چاہیے۔
یاد رہے کہ ماضی میں محکمہ برقیات ککیییی محلوں کے سطح پر کمیٹیاں بنا کر صرف ایک سیور جلانے پر عوام کو پابند کیا جاتا تھا اور اس طرح مصنوی طور پر بجلی کے قلت کو کچھ عرصے کیلئے کم کرتے تھے اس کے نتیجے میں طلب اور رسد کے درمیان بہت زیادہ فرق پیدا ہوگیا ہے اور کمیٹیوں کی آڑ میں بعض افراد لوگوں کو جرمانے کے نام پر تنگ کرتے تھے ۔