گلگت بلتستان

چلاس: تھک داس ملکیت کا معاملہ طول پکڑنے لگا

چلاس(بیورو رپورٹ) تھک داس ملکیت کا معاملہ طول پکڑنے لگا۔ تھک نیاٹ بابوسر کے عوام نے ممبران اسمبلی کے جرگے کو تھک داس سے متعلق فیصلے کا اختیار دینے سے صاف انکار کر دیا۔ تھک نیاٹ بابوسر کے عوام کا مشترکہ موقف ہے کہ تھک داس پر انکی ملکیت ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی تھک داس تھک بابوسر اور نیاٹ کے ایریے میں شمار ہوتی چلی آرہی ہے۔اس داس کی آباد کاری کے لئے بھی تھک نیاٹ اوربابوسر کے عوام نے اپنی مدد آپکے تحت واٹر چینل تعمیر کیا ہے۔اب تھک داس میں تھک نیاٹ اور بابوسر کے سینکروں گھرانے آباد ہیں۔

تھک نیاٹ اور بابوسر کے عوام کے پاس تھک داس کی ملکیت سے متعلق کیپٹن کک (1919) کے دور کی دستاویزات بھی موجود ہیں۔ تھک نیاٹ بابوسر کے عوام کا مزید کہنا ہے کہ انکی ملکیت چلاس جچن،رونئی سے لیکر التشی تک ہے۔ بابوسر جلکھڈ سڑک بنتے وقت بھی تھک نیاٹ بابوسر کے عوام نے سڑک کو بابوسر سائیڈ سے لیجانے کے عوض عوامی شاملاتی اراضی کا معاوضہ لئے بغیر مفت دیدی ہے۔ تھک نیاٹ بابوسر کے عوام دیامر بھاشہ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں ہونیوالے معاہدے (010)میں نظر انداز کرنے پر بھی نالاں ہیں ۔مالکانہ حق کے لئے تھک نیاٹ کے عوام نے بھی کیس عدالت میں دائر کیا ہوا ہے۔ دوسری جانب تھک داس کی اراضی کو سرکار نے اپنی ملکیت تسلیم کر کے مختلف لوگوں کو 1985میں بارہ ہزار مربع فٹ اراضی الاٹ کر دیا ہے جس کے خلاف 1986میں چلاس کا مالکانہ حق رکھنے والے بٹو خیل قبائل نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ کیس تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تھک داس کا کل رقبہ چودہ ہزار مربع فٹ ہے جس میں سے چار ہزار مربع فٹ اراضی دیامر بھاشہ ڈیم کی زد میں آرہی ہے۔ ۔حیران کن امر یہ ہے کہ تھک داس میں اراضی دس ہزار مربع فٹ ہےجبکہ حکومت کی جانب سے بارہ ہزار مربع فٹ اراضی الاٹ کر دی گئی ہے۔اب تھک داس کی اراضی پر تین فریقین باہم دست و گریباں ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

۔ گل

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button