ثقافتکالمز

تھومشلنگ۔۔ ایک تاریخی تہوار

تحریر اکرام نجمی

Najmiبیس اور اکیس دسمبر کی نصف شب انتہائی سخت سرد موسم میں علاقے کے بزرگ، نوجوان اور یہاں تک کہ بچے بھی ہاتھوں میں جلتی لکڑیاں لیکر ایک گڑے کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ اس مجمعے کے درمیان ایک بزرگ اپنی خوبصورت آواز میں مقامی زبان کے کچھ اشعار تحت الفظ میں سناتا ہے جسے مقامی زبان میں شاپچنگ کہتے ہیں اور ساتھ میں شری بدت نامی قدیم بروشال کے حاکم کو بد دعائیں بھی دی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ابھی ابھی شری بدت کو اس گڑے میں دھکیل پھینکا ہو اور وہ انکی یہ بد دعائیں سن رہا ہو ۔

جی ہاں یہ تھومشلنگ تہوار کا ایک منظر ہے جو آج سے کئی سال پہلے باقاعدہ گلگت بلتستان کے بعض علاقوں کے عوام نہایت اہتمام سے مناتے تھے۔ اس تہوار کو منانے کا سلسلہ اب بھی کئی علاقوں میں موجود ہے جن میں خاص طور پر ہنزہ قابل ذکر ہے

یہ ایک تاریخی تہوار ہے۔ اس تہوار کے ابتدا کے بارے میں مشہور ہے کہ بروشال یعنی موجودہ گلگت بلتستان میں ایک ظالم حکمران شری بدت کا دور حکومت تھا۔ عوام اس ظالم حکمران سے ناخوش تھے۔ جب شری بدت کی ظلم انتہا کو پہنچی تو اس کے اپنی ہی بیٹی کی مدد سے اس ظالم حکمران کوقتل کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ شری بدت کاموت آگ سے ہی ممکن تھا لہذا ایک بڑا گڑا کھود کر اس میں آگ رکھا گیا اورگڑے کے اوپر سسرکنڈوں کے چھت بنایا گیا۔ جب شری بدت مطلوبہ جگہ پر پہنچا تو کمزور ہونے کی وجہ سے چھت گرگیا اور شری بدت آگ کے کنوے میں جا گرا۔ کیونکہ یہ ایک پہلے سے تیار شدہ سازش تھا لہذا لوگوں نے اس کے اوپر آگ کے جلتے ہوئے لکڑی ڈالتے گئے اس جلتے لکڑی کو مقامی زبان میں تلینو کا نام دیا گیا۔

قدیم لوگوں کو شاید یہ وہم لاحق تھا کہ شری بدت دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے۔ اس ظالم حکمران کے خوف لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ رہتا تھا اسلئے سالانہ تھومشلنگ کے موقعے پر رسم تلینو ادا کرتے تھے۔ ان کے خیال تھا کہ رسم تلینوادا کرنے سے شری بدت کے دوبارہ زندہ ہونے کے امکان ختم ہوجاتا ہے ۔

شری بدت کے قتل کے بعد بروشال ریاست کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ مورخیں کا کہنا ہے کہ شری بدت کو قتل کرکے گلگت کے اورنگ شاہی پر قبضہ کرنے والا شخص ایران کے کیانی خاندان کے ایک شہزادہ آزر جمشید تھا جس نے شری بدت کی بیٹی نور بخت سے ملکر شری بدت کو قتل کرایا تھا۔ آزر جمشید کے ساتھ اس کے تین اور ساتھی تھے جن کے نسل آج بھی ہنزہ بشمول گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں آزر جمشید کا سپہ سالار عادل کریم کے نسل داتوسنکژ ریلے رمل کے اولاد شکووٹنگ اور برچہ کے نسل برچہ تنگ آج بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

 شری بدت کے بارے میں ایک لوک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ یہ شیر خوار بچوں کا خراج لیتا تھا لیکن بعض مورخیں اسے غلط قرار دیتے ہیں۔

جب شری بدت آگ میں جل کر ختم ہوا تو گلگت کے عوام نے خوشیاں منانا شروع کردی۔ گوکہ یہ ایک ظالم حکمران سے آزادی پانے کا دن تھا۔ اسکے بعد گلگت اور دیگرعلاقوں کے لوگ یہ تہوار تھومشلنگ کے نام سے ۲۱ دسمبر کو سالانہ منانے لگیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان پہاڑوں میں بسنے والے لوگوں کیلئے تھومشلنگ کا تہورارایک جابر حکمران کی ظلم سے آزادی کادن تھا جو پورے روایتی جوش خروش سے منایا جاتا رہا ہے ۔
قدیم زمانے میں یہ تہوار گلگت کے علاوہ ہنزہ میں بھی مخصوص انداز میں منایا جاتا رہا ہے۔ ریاست ہنزہ کے والئی میر آف ہنزہ یہ تہوار اپنے سرپرستی میں منایا کرتا تھا جس میں باقائدہ دربار (موجودہ بلتت قلعہ )کے چتق میں میوزک کا پروگرام ہوا کرتا تھا اور اس تہوار کے دن مشترکہ طور پر ایک ہی جگہ نئے جوڑوں کے شادی بھی ہوا کرتا تھا۔

تھومشلنگ تہوار کے دن نسالو (یوشیس) کا رسم بھی ادا کرتے تھے۔ نسالو اس مویشی کو کہتے ہیں جو مقامی لوگ سردیوں میں زبح کرنے کیلئے پالتے تھے۔ مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اس دن زبح کیے گئے مویشی کے گوشت گرمیوں تک کھانے اور پکانے کے قابل رہتا ہے اور اسکا ذائقہ بھی مزیدار اور خوشبودار ہوجاتا ہے۔ نسالو کا سُکھایا ہوا گوشت ہرگز خراب نہیں ہوتا جو کہ آج کے زمانے میں بھی آزمودہ ہے ۔

اس کے علاوہ تھومشلنگ کا ایک اور مخصوص کھانا درم فٹی ہے جو اس زمانے میں ہر گھر میں درم نامی میٹھی آٹے سے درم فٹی نامی کھا نا تیار کرتے تھے اور دیسی گھی کے ساتھ تناول فرماتے تھے۔ درم فٹی آج بھی کچھ گھرانوں میں بزرگ خواتین پکاتے ہیں البتہ ہنزہ میں شادی بیاہ کے موقعوں پر اس کھانا کولازمی طورپر پکایا جاتا ہے ۔

یہ خوبصورت تاریخی تہوار اب ختم ہوتا جارہا ہے جو کسی وقت سالانہ جوش و خروش سے منایا جاتا تھا مگر پچھلے کچھ سالوں سے کچھ ثقافت کیلئے کام کرنے والے ادارے اس تہوار کو دوبارہ سے منانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں اور اس سال بھی ایک مقامی این جی او ہاشو فاوٗنڈیشن کی مدد سے ہنزہ آرٹس اینڈ کلچرل .کونسل یہ تہوار ہنزہ شناکی میں منانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

اس تہوار سے متعلق کئی اور تاریخی حقائق ہوسکتے ہیں جنکی کھوج اور تحقیق لازمی ہے۔ ہمارے دھرتی کے ان خوبصورت لوک کہانیوں اور ثقافت کے ان انمول موتیوں کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہیں تاکہ ہم اپنے آئندہ نسل کیلئے انکو بہتر تحقیق کے ساتھ زندہ رکھنے میں کامیاب ہوسکیں۔

ثقافتی اداروں اور فلاحی اداروں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت و ثقافت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقے کے ان خوبصورت ثقافتی تہواروں کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں اور ان کیلئے باقاعدہ کیلنڈر مرتب کریں تاکہ زندہ قوموں کی طرح ہم بھی اپنے قومی اور ثقافتی ورثے کو زندہ رکھ سکیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button