گلگت بلتستان ہمیشہ پورے خطے کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل رہاہے ۔ غالباً یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں بیک وقت پانچ ایٹمی ممالک سے ملتی ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد اس خطے کی اہمیت اختیار کرگئی ہے، دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ بھی اسی خطے میں ہے ۔شاہراہ قراقرم کی تعمیر نے اہمیت کو اور بڑھادیا ۔پاک چین دوستی کا باہمی زمینی واحد راستہ گلگت بلتستان سے ہی ہے اور اب پاک چین اقتصادی راہدری میں بنیادی کردار بھی اسی خطے کا ہے ۔تقریبا 600کلو میٹر سے زائد اقتصادی راہداری کا گزر گلگت بلتستان سے ہوگا ۔امید یہی ہے کہ یہ راہداری خطے کی تعمیر وترقی میں انقلاب برپا کرے گی ، لیکن حکمرانوں کی غفلت ولاپرواہی اور غلط اقدام کی وجہ سے یہ راہداری خطے میں ایک نئے فساد اور ریاست جموں وکشمیر کے پونے دو کروڑ عوام کی سوا سو سالہ سالہ جدوجہد کی بربادی کا سبب بنے کا خدشہ ہے ۔
اطلاعات کے مطابق چین کا مطالبہ ہے کہ اقتصادی راہدری پرکام کے آغاز سے قبل حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو آئینی تحفظ فراہم کرے تاکہ عالمی سطحہ پر مخالف قوتوں کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جاسکے اور اسی مقصد کیلئے حکومت پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میںآئینی کمیٹی دو ماہ سے مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے مطابق اب تک چار اجلاس ہوئے اور20جنوری سے قبل حتمی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی جائے گی۔ذرائع کے مطابق نصف درجن سے زائد فارمولوں پر غور کیا جارہا ہے جن میں پورے خطے کو پاکستان کا پانچواں مستقل صوبہ بنانا ،عبوری صوبے کی حیثیت دینا ،بھارتی زیر انتظام کشمیر طرز کا نظام دینا، آزاد کشمیر کے ساتھ ملا کر مشترکہ نظام دینا ، آزدا کشمیر کو گلگت بلتستان کو ملاکر عبوری یا مستقل صوبہ بنانا وغیرہ شامل ہیں ۔
ذرائع کے مطابق بعض آئینی اور قانونی ماہرین نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ایک نئی تجویزپیش کی ہے جس پر اب تک سنجیدگی سے غور نہیں کیاگیاہے تاہم اور آخری نقطے کے طور پر ایجنڈے میں شامل ہے ۔یہ تجویز انتہائی خوفناک ہے جس میں بتایا کہ گیاہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کے وہی علاقے متنازعہ ہیں جو مہاراجہ کی حکومت میں شامل تھے ۔ ان میں خطے کے 6اضلاع گلگت ، بلتستان(4اضلاع ) اور ضلع استوربھی شامل ہیں جبکہ 4اضلاع غذر ،ہنزہ، نگراور دیامر مہاراجہ کی حکومت کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے تنازع کشمیر کا حصہ نہیں ہیں۔
اس تجویزکا انکشاف جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے مرکزی رہنماء مولانا عبدالسمیع نے کیا جس کے بعد نہ صرف مخالفین بلکہ خود لیگی وزراء اور ارکان اسمبلی(بالخصوص اسپیکر فدا محمدناشاد ، سینئر صوبائی وزیر حاجی اکبر تابان ) کا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ انتہائی سخت ہے ، جبکہ خطے عوام میں بھی سخت تشویش اورمختلف حلقوں کی جانب سے انتہائی سخت ردعمل آرہا ہے ۔ مولانا عبدالسمیع کے مطابق یہ تجویز وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی ہے جبکہ ذرائع کے مطابق تجویز بعض آئینی وقانونی ماہرین نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں پیش کی ہے ، اب تک بیشتر ارکان نے یہ کہہ کر مخالفت کی ہے کہ گلگت بلتستان کی تقسیم سے خطے میں لسانی، علاقائی اور مذہبی فسادات کا انتہائی خوفناک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ مخالفت کرنے والوں میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان بھی شامل ہیں، لیکن 10 جنوری کو ایک نجی ٹی وی کے ایک انٹرویو میں وزیر اعلیٰ کی اس تجویز کے بارے میں مبہم گفتگو نے خطے میں ان کیخلاف نیا محاذ کھڑا کردیا ہے ،کیونکہ ہرپارٹی ، جماعت اور فرداپنے حساب سے انٹرویو میں کی گئی باتوں کی تشریح کررہا ہے۔ مخالفین خطے کی تقسیم کی تجویز کو صوبائی حکومت کا فارمولا قرار دیکر وزیر اعلیٰ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور حامی خواب خرگوش میں ہیں۔مصدقہ ذرائع کے مطابق مولانا عبدالسمیع کا یہ دعویٰ درست ہے کہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے زیر غور یہ تجویز ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ تجویز کنندہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ہیں ۔
اس تجویز کے بارے میں”راقم ” نے جب کمیٹی کے سربراہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے رابطہ کیا تو انہوں نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے واضح انکار کیا ،جب خصوصی طور پر اس تجویز یا فارمولے کے بارے میں ان سے استفسار کیا تو انہوں نے انتہائی تلخ لہجے میں تصدیق یا تردید کرنے سے واضح انکار کیا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن عملا ًخاموش ہیں اگرچہ ان کے ترجمان کی جانب سے گلگت بلتستان کی وحدت ہونے کے حوالے سے وضاحت آئی ہے لیکن جس سطح کا یہ معاملہ ہے اس میں وزیر اعلیٰ کو خود قوم کے سامنے آکر خطے کی سالمیت ، بقاء اور وحدت کے حوالے سے واضح موقف اختیار کرنا ہوگابصورت اس طرح کی کسی بھی تجویز کو ان کا ہی موقف سمجھا جائے گا، کیونکہ گلگت بلتستان سے کمیٹی میں شامل وہ واحد نمائندے ہیں۔ بنیادی طور پر خطے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف وزیر اعلیٰ کو ہی کمیٹی میں شامل کرنے کا فارمولا انتہائی غیر سنجیدہ اور طفلانہ اقدام ہے ۔کمیٹی میں کم ازکم 3بڑے مکاتب فکر کی نمائندگی ضروری ہے کیونکہ خطہ پہلے ہی مذہبی بنیادوں پر بدترین تقسیم اور انتشار کا شکارہے ، جبکہ ایک بڑے طبقے نے روز اول سے حافظ الرحمن کو عملًا وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کیاہے جن میں بعض صوبائی وزراء اور (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جو پہلے وزیر اعلیٰ بننے کے خواب دیکھ رہے تھے اور حالیہ ہنگامہ خیزی کے بعد دوبارہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ(ن) گلگت بلتستان کے بعض اہم رہنماء بالخصوص بعض ارکان اسمبلی انہتائی سرگرم ہیں، اس ضمن میں3 تجاویز زیر غور ہیں۔ پہلی تجویز یہ ہے کہ خطے میں وزیر اعلیٰ کے خلاف بھرپور محاذ بنانے کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ان ہائوس تبدیلی پر راضی کیا جائے ، دوسری تجویز یہ ہے کہ گورنر کووزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے پر راضی کیا جائے کیونکہ ایسی صورت میں سادہ اکثریت (17ارکان)کو پورا کرنا وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری ہے۔تیسری تجویز اپوزیشن کو شامل کرکے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرناہے ۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور ان کی ٹیم اقتدار کے نشے میں خواب خرگوش میں ہے جن کو یہ ادراک نہیں کہ ان کی خاموشی اور غیر سنجیدگی خطے کو کتنے بڑے فسادکا شکار کرسکتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعلیٰ قوم کو اصل حقیقت آگاہ کریں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی مشاورتی اور میڈیا ٹیم میں قحط الرجال ہے۔ بعض صوبائی وزراء کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن ان سے مشاورت کرنے کے بجائے تنہا فیصلے کرتے ہیں اس لئے حالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں ۔رابطے کے فقدان کی شکایت میڈیا کو بھی روز اول سے ہے جس کی نشاندہی کئی بار کی گئی مگر شاید اقتدار کا نشہ غور کا موقع نہیں دے رہا ہے۔
حکومت پاکستان اگرخطے کو آئینی تحفظ دینے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اس کا واحد حل خطے کی وحدت کو برقرار، تاریخی حقیقت ، کشمیریوں کی سواسوسالہ جدوجہد آزادی اور عوامی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے عبوری آئینی تحفظ فراہم کرنا ہے ،جو بھارت اپنے آئین کے آرٹیکل 370میں اپنے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان اپنے آئین کے آرٹیکل257میں آزاد کشمیر کو فراہم کرچکا ہے ، اس کے سوا کسی بھی فارمولے کا نتیجہ فساد ہی ہوگا۔اس پر دو طرفہ کشمیری قیادت کا سیخ پا ہونا مزید خلیج کا باعث ہوگا ۔
اگر چین مستقل صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ نہ صرف غلط بلکہ خطے کی قومی سلامتی پر حملہ ہے ۔چین کو 70سال بعد یہ خیال کیوں آیا کہ وہ سرمایہ کاری سے قبل خطے کی آئینی حیثیت کا تعین کرائے ،حالانکہ پاکستان اور چین کے درمیان گلگت بلتستان کے اکسائی چن بعض علاقے ایوب خان کے دور میں معاہدے کے تحت چین کے حوالے کئے گئے،معاہدے میں بڑی وضاحت کے ساتھ خطے کی پوزیشن واضح کی گئی ہے اور کہاگیا ہے کہ یہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں ۔چین کو شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے وقت خطے کی آئینی پوزیشن کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اب عام حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کبھی چین کی جانب سے کسی فرد کو مقامی حکومت میں اہم عہدہ دینے اور کبھی خطے کی آئینی تشخص کو واضح کرنے کے مطالبات کی خبریں سامنے آرہی ہیں ۔چین ایک پڑوسی ملک اور پاکستان کا دیرینہ ساتھی ضرور ہے لیکن آقا بننے کی کوشش چین اور پاکستان دونوں کے فائدے میں نہیں ہے۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Once Dogra were thrown out from GB in 47/48, it meant end of the Maharaja era. GB is part of Pakistan.