کالمز

چائنا اور پاکستان کیلئے سی پیک کی ترجیحات

تحریر: محمد عامر رانا

ترجمہ : فداحسین

اقصادی راہداری منصوبے کوپاکستان اور چائنا دونوں خطے کی ابھرتی ہوئی صورت ِحال میں اہم سنگ میل تصور کرتے ہیں ۔ کیونکہ اس میں یورپ او ر ایشاء کی تزویراتی(جنگی حکمت عملی) اور جغرافیائی اہمیت کو تبدیل کرنے صلاحیت موجود ہے ۔

اس راہدی منصوبے کے حوالے سے دونوں اطراف بے چین دکھائی دیتے ہیں ۔لیکن اس بے چینی کی وجوہات دونوں کیلئے الگ الگ ہیں۔چائنا کیلئے یہ منصوبہ اقتصادی راہدای کے چھتری تلے ون بیلٹ، ون روڈکا آغاز ہے ۔ جبکہ پاکستان کیلئے یہ منصوبہ خطے میں تزویراتی اور معاشی بہتری کا محرک ہے۔ تاہم اس خوشگوار آغاز کو اس وقت بعض سازشوں اورناامیدیوں کا بھی سامنا ہے ۔ چائنا اس منصوبے پر بلا روک ٹوک عمل در آمد کا متمنی ٰ ہے لیکن پاکستان میں اس پر اتفاق رائے پیدا ہونے میں تاخیر اور کام کی رفتار سست ہونے پر بیجنگ پاکستان سے ناراض ہے۔پاکستانی اسٹبلیشمنٹ اس منصوبے کے ذریعے سے معیشت کی بہتری پر توجہ دینے کے بجائے سی پیک اور چائنا کے ساتھ دوستی کو خطے میں خاص کر انڈیا کے خلاف طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اس منصوبے کے حوالے سے دونوں اطراف میں اس قسم کے ملے جلے تصورات کے باوجود دونوں ممالک اس سے بہت سے باہمی مفادات حاصل کر سکتے ہیں ۔اس لئے دونوں اطراف سے ابھی تک ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کیا گیا ہے جس سے اضطراری اور ناامیدی کی کیفیت پیدا ہو۔پاکستان اس منصوبے سے بیک وقت اندرونی دباؤکا مربوط طریقے سے سامنا کرنے اور خارجہ پالیسی کے لوازمات کے بارئے میں (مزید)واقفیت کا تجربہ حاصل کر رہا ہے ۔اوراسی طرح چائنا افریقہ میں کئے گئے تجربے کے برعکس ون بیلٹ، ون روڈمنصوبے میں نئی شراکت کا مفید تجربہ حاصل کر رہا ہے ۔

چین براعظم افریقہ کے کئی حصوں میں انفراسٹرکچر کے بڑئے کامیاب منصوبوں میں کام کرنے کا قابل ستائش تجربہ رکھتا ہے ۔تاہم چینی سرمایہ کار ان مواقعوں کے فوائد کو اپنی حکومت کی غیر مشروط حمایت سے ہی سمیٹنے کے قابل ہوئے ۔ناقدین کے نزدیک بد عنوانی اوررشوت ستانی اس منصوبے پر تیزی سے عمل در آمد میں روکاٹ ہیں ۔

 جنوبی ایشاء اورپاکستان افریقی ممالک سے مختلف ہیں ۔ اگرچہ قومی مسائل کی فہرست میں کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اور پانامہ لیکس جیسے سکینڈل کی وجہ سے حکومت پرعوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے ، جس سے حزب اختلاف ،میڈیا ،عدلیہ ،عام شہری اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں پیدا ہونے والے غم وغصہ کو دبانے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے۔

سیاسی حکومت اتفاق رائے پیدا کئے بغیر قومی مسائل حل نہیں کر سکتی ۔ اور بعض اوقات(مطلوبہ) اتفاق رائے پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے۔تاہم جب ایک دفعہ اتفاق رائے پیدا ہوجائے تو اس کے بعد اس میں شفافیت اور سماجی استحکام کو یقینی بنانا بھی لازمی ہے جس کیلئے طویل المدتی بنیادوں پر محتاط طریقے سے عمل در آمد ضروری ہے ۔

کولمبو شہر کابندرگاہ کا منصوبہ اس کی بہتریں مثال ہے اس منصوبے پر سابقہ حکومتوں نے دستخط کئے تھے تاتاہم اندونی طور پر اس میں شفایت کے فقدان پر ہونے والی(شدید) تنقید کی وجہ سے نئی حکومت کو اس منصوبے پر کام روکنا پڑا ۔صدر میٹھرا پال سری سینا کی حکومت نے اس منصوبے کی بعض شرائط میں تبدیلی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد اس منصوبے پر دوبارہ کام کا آغاز کر دیا ہے ۔

 آمرانہ قیادت اہم قومی مسائل پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکتی ۔اس قسم کی حکومت وفاقی اکایئوں میں پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کو فروغ دے کر سیاسی اور سماجی سطح پر ناامیدی جنم دیتے ہیں جو آخر کار سیکورٹی خدشات پیدا ہونے کا موجب بنتی ہے ۔وسائل کی تقسیم کے دیگر بہت سے مسائل کے علاوہ کالا باغ ڈیم پرفوجی حکمرانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجودقومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکامی اس کی اہم مثال ہے ۔اس لئے مناسب ہے کہ سیاسی حکومت ایسے معاملات میں ماضی کی طرح اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے اسے برقرار بھی رکھے ، جس میںپانی کی تقسم کا مسئلہ ،این ایف سی ایورڈاور کچھ آئینی درستگی ماضی قریب کی عمدہ مثالیں ہیں۔یہاں تک کہ سی پیک پر عمومی طور پر تمام سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔تاہم اگر کسی سیاسی جماعت یا کسی صوبے کو کوئی تحفظات ہوں تو اسے حل کرنے کیلئے فورمز موجود ہیں ۔

سی پیک سے منسلک تمام منصوبوں پر بلا روک ٹوک کا م جاری رکھنے کیلئے اس کو آئینی اور قانونی طور پر تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اسے بیوروکریسی کے چنگل سے بھی آزاد رکھنا ہوگا۔حکومت نے اس سلسلے میں بعض ترغیبات بھی دینے کا بھی وعدہ کر رکھا ہے جس میں ون ونڈیو آپریشن ، بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے رابطے اور انہیں سرمایہ کاری کیلئے (پرکشش)ماحول پیدا کرنا شامل ہیں ۔چینی سرمایہ کاروں کو آسانی پیدا کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر الگ سے طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے ۔ صوبے اپنے علاقوں میں تیزی /جلدی سے سیاکنامک زون بنا کر دیگر ملکوں کے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لئے ترغیب دے سکتے ہیں ۔

یہاں پر مشترکہ مفادات کونسل کو مزید مؤثر طریقے سے فعال بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کی پارلیمانی کمیٹی کو مؤثر طریقے سے اپنے احکامات جاری کرنے کیلئے چوکس رہنا ہوگا ۔اگر ضرورت پڑئے تو سی پیک پر نظر رکھنے کے ایک خصوصی کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے جو سیاسی جماعتوں کے نمائندوں ،چمبر آف کامرس، ٹیکنوکریٹس اور ماہریں پر مشتمل ہو۔مزید برآں یہ کہ اس منصوبے کی سیکورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کمیٹی میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔

چینی ماہریں اس منصوبے کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلے کی جانب نشاندہی کر رہے ہیں جو کہ پاکستان میں اس منصوبے پر سا ئنٹیفیک طریقے کا فقدان ہے ۔جو براہ راست پر اس منصوبے کے مغربی روٹ کے تناظر میں اس کی سیکورٹی ،معاشی ،اور تزویراتی حوالوں سے ترجیحات تعین کرنے سے متعلق ہے ۔اُن ماہرین کی آرا ء میں ان لمبی سٹرکوں کی کامیابی کے امکانات اور اس پر لاگت کا تخمینہ سائنٹیفیک طریقے سے لگانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس معاملے میں سیاسی حکومت کو اس کی (بھاری) سیاسی قیمت پر( اس منصوبے کو )عملی جامہ پہنانے کے تصور سے گریز کرنا چاہیے ۔حکومت کیلئے اس مسئلے کا بہتریں یہ حل ہے کہ اس کے مالی بوجھ کو برداشت کرتے ہوئے اس کے دونوں روٹس پر بیک وقت توجہ دے ۔جو قومی اتحاد اور سیاسی استحکام دونوں کیلئے ضروری ہے ۔

بہت سے ماہرین خطے میں بڑھتی ہوئی موجودہ (بین الاقوامی) سیاسی وجغرافیائی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سی پیک کی تزویراتی اہمیت کے بارئے میں درست اندازہ لگا رہے ہیں ۔گوادر بندر گاہ بحیرہ عرب میں ابھرتے ہوئے تزویراتی منظرنامے میں چائنا اور پاکستان کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ا ور اس بندر گار تکمیل کی صورت میں خطے میں مقابلے کا (بھی) بہت بڑا رجحان پیدا ہوگا۔کیا اس منصوبے کے (اتنے وسیع) معاشی فوائد کے امکانات کے باوجود اس کے محض تزویراتی پہلو کو اہمیت دینا دانش مندی ہوگی؟

 مختصر یہ کہ پاکستان منصوبے کے معاشی فوائد کو قربان کرتے ہوئے محض اس کے  تزویراتی فائدہ حاصل نہیں کر سکے گا۔چین اس بندرگاہ اور راہدای کو غیر معمولی طور تزویراتی اہمیت دینے کے حق میں نہیں ہوگا۔بلکہ وہ اسے ون بیلٹ، ون روڈ کی اہم مثال بنانا چاہتا ہے ۔پاکستان کو اپنے خطے کی سیاست میں توازن قائم کرنے کیلئے اس منصوبے کے تزویراتی فوائد کو مسلسل استعمال کرتے ہوئے امریکہ سے اپنی تعلقات برقرار رکھنے کی صورت میں چائنا کے تزویراتی اور معاشی مفادات کو نقصان پہنچنے سے گریز کرنا چاہیے ۔

سی پیک چائنا اور پاکستان دونوں کیلئے اہم تجربہ ہے چائنا اس ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کو خطے میں ایک جیسے سماجی و سیاسی اقدار رکھنے والے ممالک کے ساتھ مل کر پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے ۔اور پاکستان کیلئے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے اس پر کسی قسم کے سیاسی اور سیکورٹی کے مسائل پیدا کئے بغیر عمل در آمد کی کڑی آزمائش ہوگی۔

بشکریہ ڈان

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button